بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال
کیا ناپاکی کی حالت میں طلاق واقع ہو جاتی ہے ناپاکی کی حالت کا مطلب ہم بستری کے بعد یا جب عورت حیض کی حالت میں ہو ؟
الجواب وباللہ التوفیق
حلال چیزوں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں طلاق ہے، لہذا حتیٰ الامکان کوشش کرنا چاہیے کہ طلاق کی نوبت نہ آئے اور نباہ کو ممکن بنایا جائے، لیکن اگر تمام تر کوششوں کے بعد بھی نباہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہو سکے اور طلاق ہی آخری راستہ دکھائی دیتا ہو تو شوہر کو چاہیے کہ ایسے طہر (پاکی کے ایام) میں طلاق دے جس میں اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔
اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو حیض کے ایام میں طلاق دیتا ہے تو یہ طلاق واقع تو ہو جائے گی، لیکن یہ ایک نا پسندیدہ طریقہ ہے اور اس صورت میں شوہر گناہ گار بھی ہو گا، اسی طرح جس طہر میں بیوی سے قربت کی ہو، اس میں (یعنی قربت کے بعد) طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، تاہم یہ بھی شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔
بہرحال! اگر کوئی شخص افضل طریقہ کو چھوڑ کر ہم بستری کے بعد یا حیض کے ایام میں ناپاکی کی حالت میں طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی۔
الفتاوى الهندية (1/ 349):
"(والبدعي) من حيث الوقت أن يطلق المدخول بها وهي من ذوات الأقراء في حالة الحيض أو في طهر جامعها فيه وكان الطلاق واقعًا و يستحب له أن يراجعها، و الأصح أن الرجعة واجبة، هكذا في الكافي".
سنن الدارقطني (5/ 57):
فقط
و الله اعلم
0 تبصرے