حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
اسراء و معراج کے موقع پر :
اسراء کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے جس قوت ایمانی کا ثبوت دیا وہ نہ صر ف حیر ت انگیز ہے بلکہ اس نے بہت سے مسلمانوں کو ٹھوکر کھانے سے بچا لیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل مکہ سے بیان فرمایا کہ رات کو آپ خانہ کعبہ سے بیت المقدس لے جائے گئے اور وہاں آپؐ نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی تو مشرکین نے آپ کا مذاق اڑانا شروع کیا اور کہنے لگے کہ مکہ سے شام تک کا فاصلہ ایک مہینے کا ہے یہ کس طرح ممکن ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس جائیں اورایک ہی رات میں دو مہینوں کی مسافت طے کر کے واپس آجائیں۔ بعض مسلمانوں کے دلوں میں بھی تردد پیدا ہو گیا کہ انہوں نے جا کر حضرت ابوبکرؓ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ یہ سن کر کہ ابوبکرؓ پر دہشت سی طاری ہو گئی ہے اور وہ کہنے لگے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان باندھتے ہو، لوگوں نے کہا :
’‘ہم جھوٹ نہیں کہہ رہے، آپ نے ابھی مسجد میں یہ بات بیان فرمائی ہے‘‘
یہ سن کر ابوبکرؓ نے کہا ’’اگر آپ نے واقعی یہ کہا ہے تو بالکل سچ کہا ہے، جب اللہ آسمان سے چند لمحوں میں وحی نازل فرما دیتاہے تو اس کے لیے رات بھر میں مکہ سے بیت المقدس لے جانا اور واپس لے آنا کیا مشکل ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ مسجد میں آئے۔ جب آپ مسجد اقصیٰ کا حال بیان کر کے فارغ ہوئے توا بوبکرؓ نے کہا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بالکل سچ فرماتے ہیں‘‘۔
اس وقت آپ ؐ نے ابوبکرؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
اگر ابوبکرؓبھی اسراء کے واقعے میں شک کا اظہار کرتے تو یقینا بہت سے مسلمان مرتد ہوجاتے اور جو لوگ اسلام پر قائم بھی رہتے ان کے دلوں میں بہرحال شکوک و شہبات گھر کر جاتے۔ لیکن ابوبکرؓ کی قوت ایمانی نے نہ صرف لوگوں کو مرتد ہونے سے بچایا بلکہ ان کے دلوں کو بھی شکوک و شبہاب سے پاک کر دیا۔ یہ واقعات دیکھ کر بہر صور ت ماننا پڑے گا کہ ابوبکرؓ کے زریعے دین اسلام کو جو تقویت پہنچی وہ حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے ذریعے سے بھی حاصل نہ ہو سکی۔ او ر یہی وجہ تھی کہ ان کی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :
لوکنت متخذا من العباد خلیلا لا تخذت ابابکر خلیلا
’’یعنی اگر میں بندوں میں سے کسی کو گہرا اور دلی دوست بناتا تو یقینا ابوبکرؓکو بناتا(گہرااوردلی دوست سوا خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا)۔
اسراء کے بعد :
اسراء کے واقعے کے بعد ابوبکرؓ ساراو قت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کمزور اور مظلوم مسلمانوں کی اعانت اور اسلام کی تبلیغ میں گزارنے لگے۔ تجارت صرف اسی حد تک کرتے جس سے اپنا اوراپنے اہل وعیال کا گزارہ چلا سکیں۔ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکرؓ اور دوسرے مسلمانوں پر قریش کے مظالم میں زیادتی ہی ہوتی چلی گئی …قریش نے ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا۔ یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت دے دی کہ اگر وہ چاہیں تو حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں ۔ چنانچہ متعدد مسلمان ان مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے حبشہ کی طر ہجرت کر گئے لیکن ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا گوارانہ کیا اور بدستور مکہ میں رہ کر تبلیغ کرنے مظلوموں کی مدد کرنے اورانہیں بے دینوں سے چھڑانے کے کام میں سرگرمی سے مصروف رہے اور مکہ میں اسلام پھیلانے کا فرض پوری خوبی اورتن دہی سے انجام دیتے رہے ۔
ایک روایت یہ ہے کہ ابوبکر ؓ بھی حبشہ کی جانب ہجرت کر نے کے ارادے سے روانہ ہوئے تھے۔ راستے میں مکہ کا ایک سردار ابن دعنہ انہیں ملا۔ جب اسے ان کے ارادے کا علم ہوا تو بولا آپ ہجرت نہ کریں، آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، نہایت صادق القول ہیں، محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اوربیکسوں اور مظلوموں کا دکھ دورکرتے ہیںَ ۔ میں آپ کو پناہ دینا چاہتاہوں، آپ واپس مکہ چلیے۔ چنانچہ وہ مکہ آ گئے۔ ابن دعنہ نے اپنے وعدے کے مطابق کعبہ میں اعلان کر دیا کہ میں نے ابوبکرؓکو پناہ دے دی ہے۔ قریش نے بھی اس پناہ کو قبو ل کر لیا۔ ابوبکرؓ نے اپنے گھر کے صحن میں ایک مسجد بنا رکھی تھی جہاں وہ نماز پڑھتے اور پر سوز لہجے میں قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے مشرکین کی عورتیں اور بچے تلاوت کی آواز سن کر ان کے گرد جمع ہو جاتے اوربڑے انہماک سے قرآن مجید سنتے رہتے تھے جب قریش نے یہ دیکھا توانہیں خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں ان کی عورتیں اور بچے ابوبکرؓ کی تلاوت سن کر اسلام کا اثر قبول نہ کر لیں ۔ انہوں نے ابن دعنہ سے شکایت کی جس پر اس نے اپنی پناہ واپس لے لی اور ابوبکرؓ پھر کفار کے مظالم کا نشانہ بن گئے۔
حضرت ابوبکرؓ نے حسب معمول حضرت حمزہؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ جیسے سربرآوردہ مسلمانوں سے مل کر کمزور مسلمانوں کو قریش کے مظالم سے محفوظ رکھا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے وسیع اثر و رسوخ کے ذریعے سےکفار میں ایسے اشخاص سے بھی تعلق قائم کیا جو بتوں کو پوجنے اوراسلام کی مخالفت کرنے کے باوجود قریش کی ان ایذ ا رسانیوں کو جو وہ غریب و بے کس مسلمانوں پر روا رکھتے تھے نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے انہیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اپنے بھائی بندوں کی ان انسانیت سوز حرکات پر برملا نفرت کا اظہار کریں گے اور انہیں ایسا کرنے سے روکیں۔
0 تبصرے