آرمینیا اور آذربائجان؛ ایک تاریخی و تقابلی جائزہ
ایک وقت تھا، جب افغانستان کی زرخیز زمینوں پر روسی ٹینک دندناتے پھرتے تھے، وہاں کی مسلم آبادیاں روسی فوج کا تر نشانہ تھیں، افغانی باشندوں کا خون روسیوں کے لیے پانی سے بھی ارزاں تھا۔
پھر اسلام اور آزادی کے نام پر وہاں کی ایک مختصر سی جماعت اٹھی، اور چند سالوں میں اس نے روسیوں کو چَھٹی کا دودھ یاد دلا دیا، اور آخر کار 1991 میں جب روس افغانی زمین چھوڑنے پر مجبور ہوا، تو صرف افغانستان ہی نہیں، ساتھ میں دسیوں اور مقبوضہ ممالک کو آزاد فضائیں نصیب ہوئیں۔
انہیں ممالک میں آرمینیا اور آذربائجان بھی تھے، اول الذکر متعصب عیسائی ملک ہے، اور دوسرا مسلم...
1991ء میں یہ آزاد تو ہوگئے، لیکن آزادی کے پھولوں کے ساتھ کچھ خار بھی ان کے دامن کا حصہ بنے، چنانچہ روس نے ان ممالک کو چھوڑنے سے قبل، ان کے درمیان ایک زمینی تنازعہ پیدا کر دیا، آذربائجان کے اندر ایک قرہ باغ (Nagorno karabakh) نامی علاقہ تھا، اس کے متعلق آرمینیا نے 1988ء (روس کے مکمل شکست تسلیم کرنے کے تین برس قبل، جس سال روس نے سرد جنگ میں امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے تھے) میں روس کے اشارے پر حقِ ملکیت کا دعویٰ کر دیا، حالانکہ اصولی اعتبار سے وہ آذربائجان کا حصہ تھا، کیوں کہ وہاں ہمیشہ مقامی باشندوں کی حکومت رہی ہے، اور گزشتہ تقریباً پانچ چھ صدیوں سے وہاں کی اصل آبادی مسلمان ہے، اور وہ خود کو آذربائجان کا حصہ بتاتے ہیں؛ اس لحاظ سے کلی طور پر وہ آذربائجان کا علاقہ ہے۔
لیکن روس نے آزادی سے چند برس قبل، وہاں تنازعہ پیدا کر کے آرمینیائی فوج کو قبضہ دلا دیا، تب سے اب تک اس علاقے پر آرمینیا کا قبضہ ہے۔
اور اس غاصبانہ قبضے کے نتیجے میں آرمینیائی فوج وہاں کی مقامی آبادی پر ظلم و تشدد کرتی رہتی ہے، مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو مشتعل کر کے احتجاج وغیرہ پر مجبور کرتی ہے، اور پھر اسی بہانے ان کو مسلمانوں پر ظلم و تعدی کا موقع ملتا ہے۔
چنانچہ وہاں کی ایک مشہور مسجد (Agdam mosque) ہے، جسے ایک مسلم بادشاہ نے 1870ء میں تعمیر کرایا تھا، چند سالوں قبل اس مسجد پر آرمینیائی فوجیوں نے قبضہ کر لیا، اور اس کو خنزیر اور دیگر جانوروں کا اصطبل بناکر تصاویر وائرل کر دیں، تاکہ مسلمانوں کے جذبات برانگیختہ ہوں، اور ان پر ظلم و بربریت کا موقع ملے۔
اس علاقے میں آرمینائی مظالم کی فہرست کافی طویل ہے، جن میں "بیک وقت چھ ہزار مسلمانوں کو ظلماً شہید کرنا" بھی شامل ہے، اور انہیں مظالم کا نتیجہ ہے کہ یہاں کے مقامی مسلمان بتدریج اس علاقے کو چھوڑ رہے ہیں، اب تک ایک لاکھ مسلمان یہاں سے ہجرت کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ اس متنازعہ علاقے کے تعلق سے اقوام متحدہ میں آٹھ قرار دادیں پیش کی جا چکی ہیں، جن میں سے آخری قرار داد میں یہ کہا گیا ہے کہ آرمینیا کی قابض فوج غیر مشروط طور پر اس علاقے کو خالی کر دے۔
دوسری جانب آرمینیائی فوجیں آذربائجان کی فوج پر بھی چھوٹے موٹے حملے کرتی رہتی ہیں، بنا بریں متعدد مرتبہ ان کے درمیان جھڑپیں ہو چکی ہیں، جن میں ایک بڑی جھڑپ 2014ء میں ہوئی تھی، جو بعد میں جنگ میں تبدیل ہوتی نظر آئی، لیکن ہمسایہ ممالک نے جنگ بندی کرا دی، اس کے علاوہ ابھی جولائی 2020ء میں بھی دونوں کے درمیان ہتھیاروں کا تبادلہ ہوا تھا۔
حالیہ جنگ کی ابتدا (ذرائع کے مطابق) 16 ستمبر کو ہوئی، جو ابتداء میں ہلکے پھلکے حملوں تک محدود تھی، لیکن اب اس میں شدت آ گئی ہے، جس سے دونوں جانب کافی نقصان ہوا ہے، البتہ آذربائجان کافی بہتر حالت میں ہے، اور اس نے کچھ مقبوضہ علاقے بھی چھڑا لیے۔
حالیہ صورتِ حال کے تناظر میں دونوں کی فوجی طاقت کی بات کی جائے، تو اس میں آذربائجان کا پلڑا بھاری ہے۔
چنانچہ آذربائجان کے فوجیوں کی تعداد چھیاسٹھ ہزار نو سو چالیس اور ریزرو فوجیوں(reserve military) کی تعداد تین لاکھ ہے، ساتھ ہی 665 ٹینک(tank)، 1637 آرمڈ گاڑیاں(armored cars)، 740 اٹلری (artillery)، 237 خود کار اٹلری (automatic artillery)، 196 راکٹ مار اٹلری (rocket artillery)، 127 ایئر کرافٹ(aircraft)، 5 لڑاکا طیارے (fighter jets)، 13 ملٹری رول ایئر کرافٹ (military aircraft)، 11 اٹیک ایئر کرافٹ (attack aircraft)، 75 لڑاکا ہیلی کاپٹر اور ساتھ میں ایک بحری فوج (navy) ہے۔
دوسری جانب آرمینیائی فوجیوں کی تعداد پینتالیس ہزار اور ریزرو فوجیوں کی تعداد دو لاکھ دس ہزار ہے، اس کے علاوہ 529 ٹینک، 1000 آرمڈ گاڑیاں، 293 اٹلری، 38 خودکار اٹلری، 105 راکٹ مار اٹلری، 65 ایئر کرافٹ، 13 اٹیک ایئر کرافٹ اور 42 لڑاکا ہیلی کاپٹر ہیں، لڑاکا طیارے، ملٹری رول ایئر کرافٹ اور بحری فوج اس کے پاس نہیں ہے۔
ابن مالک ایوبی
0 تبصرے