حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پر امن خلافت :
حضرت علیؓ اور بنی ہاشم کی بیعت خلافت کے متعلق خواہ مورخین میں کتنا ہی اختلاف ہو لیکن اس امر پر سب متفق ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے اول روز ہی سے خلافت کا کاروبار بغیر کسی شور و شر اور فتنہ و فساد سے سنبھال لیا۔ اس سلسلے میں ایک روایت یہ بھی موجود ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ بنی ہاشم یا کسی فرد یا کسی اور شخص نے ابوبکرؓ کے خلا ف مسلح بغاوت یا جنگ کااعلان کرنے کا سوچا ہو۔ چاہے ا س کا باعث لوگوں کے دلوں میں اس بلند ترین مرتبے کا احساس موجود ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ابوبکرؓ کو حاصل تھا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اگر میں بندوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔ یا وہ شرف قربت ہو جو ہجرت کے موقع پر انہیں حاصل ہو یا ان کے وہ فضائل و محاسن ہوں جن کے باعث لوگوں کے دلوں میں ان کی قدر و منزلت کا احساس پیدا ہو گیا تھا یا وہ مدد ہو جو وہ ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روا رکھتے تھے۔ یا یہ واقعہ ہو کہ آپ نے اپنی آخری علالت میں انہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا۔ بہرحال ان کی بیعت کا سبب خواہ کوئی بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ نہ ان کے مقابلے میں کوئی شخص اٹھا اور نہ کوئی اور شخص جس نے ایک مرتبہ ان کی بیعت کر لی تھی۔ بیعت سے کنارہ کشی کرنے والوں کے پاس گیا۔
یہ امر اس بات کی محکم دلیل ہے کہ اولین مسلمانوں کے دلوں میں خلافت کا جو تصور تھا وہ اس تصور سے بالکل مختلف تھا جو بعد میں بنی امیہ کے زمانے میں پیدا ہو گیا تھا۔ اولین مسلمانوں کے دلوں میں خلافت کا تصور اس عربی تمدن کے عین مطابق رہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں رائج تھا۔ لیکن جب اسلامی فتوحات نے وسعت اختیار کی تو عربوں کا اختلاط کثرت سے مفتوحہ قوموں کے ساتھ ہونے لگا تو اس اختلاط اور مملکت اسلامیہ کی وسعت کے نتیجے میں خلافت کے متعلق مسلمانوں کے تصور میں بھی فرق آ گیا۔
ابتدا میں مسلمانوں کا تصور خلافت خاص عربی نقطہ نگاہ سے تھا۔ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کے لیے خلافت کی وصیت نہ فرمائی۔ اس امر کے پیش نظر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دن سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار اور مہاجرین کے درمیان تنازع اورعام بیعت کے بعد بنی ہاشم اور دوسرے تمام مہاجرین کے درمیان خلافت کے سلسلے میں پیدا چشمک پر غور کرتے ہیں تو بلاشبہ صریحاً عیاں ہو جاتاہے کہ خلیفہ اول کا انتخاب کرنے کا موقع پر اہل مدینہ نے اجتہاد سے کا م لیا۔ کتاب و سنت میں انتخاب خلافت کے لیے کوئی سند نہ تھی۔ اس لیے مدینہ کے مسلمانوں نے جس شخص کو خلافت کی گراں بار ذمہ داری اٹھانے کا اہل سمجھا اسے خلافت سپرد کر دیا ۔ اگر انتخاب خلیفہ کا معاملہ مدینہ سے باہر دوسرے قبائل عرب تک بھی محیط ہو جاتا تو حالات بالکل مختلف ہوتے اور اس صورت میں حضرت عمرؓ کے قول کے مطابق حضرت ابوبکرؓ کی بیعت اتفاقیہ اور ناگہانی نہ ہوتی۔
حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے موقع پر جو طریقہ استعمال کیا گیا تھا وہ بعد کے دوخلیفوں (حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ) کے انتخاب کے وقت استعمال نہ کیا جا سکا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی وفات سے قبل حضرت عمرؓ کی خلافت کی وصیت فرما دی تھی۔ اور حضرت عمرؓ نے اپنی وفات سے پہلے حضرت عثمانؓ کے لیے چھ آدمیوں کی ایک کمیٹی مقرر کر دی تھی۔ جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور اس کے نتیجے میں حضرت علیؓ اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلافات رونما ہو کر بالآخر خلافت امویوں کے ہاتھ میں آئی تو انتخاب کا طریقہ بالکل بدل گیا اور خلافت باپ کے بعد بیٹے اور بیٹے کے بعد پوتے کی طرف منتقل ہونے لگی۔
حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں جو نظام جاری کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے اصل اور خود ان کے آپ سے گہرے تعلقات کے باعث ' تقریباً وہی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا تھا۔ لیکن جب حالات متغیر ہوئے اور اسلامی فتوحات میں وسعت پیدا ہوئی تو یہ نظام بھی آہستہ آہستہ مٹتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ عہد عباسیہ کے زمانہ عروج اور ابوبکرؓ کے زمانے کے نظام ہائے حکومت میں زمین و آسمان کافرق تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان کے بعد آنے والے تین خلفاء کے جاری کردہ نظاموں میں بھی بہت فرق ہے۔
حضرت ابوبکرؓ کا عہد اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل منفرد ہے۔ ان کا زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دینی سیاست اور حکومت کی دنیوی سیاست کا سنگم تھا۔ یہ درست ہے کہ دین مکمل ہو چکا تھا اور کسی شخص کو اس میں تغیر و تدل اور اس کی تنسیخ کرنے کا حق حاصل نہ تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد معاً عرب میں ارتداد کی وباپھیل گئی اور بہت سے قبائل اسلام سے روگرداں ہو گئے اس صورت حالکی موجودگی میں حضرت ابوبکر کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اس عظیم الشان خطرے کو دور کرنے کے لیے ایک مضبو ط پالیسی مرتب کریں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمسایہ مملکتوں کے سربراہوں کو اسلام کی دعوت پہنچانے کاایک اہم فریضہ بھی شروع کیا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اسے بھی پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ انہوں نے یہ کام کس طرح انجام دیا؟ اور یہ اہم ذمہ داری کس طرح ادا کی؟ اس کی تفصیلی ذکر ہم آئندہ تحاریر میں کریں گے۔ (ان شاء اللہ )
جاری ہے ...
0 تبصرے