گھرگھرمفتی، ہر گھرمفتی، مفتی ہی مفتی، ہرکوئی مفتی
زمانۂ جاہلیت میں جب عربوں میں کچھ اختلاف ہوتا تو وہ عامر بن ظرب عدوانی نامی شخص (جو کہ ایک مشرک اور اپنی جاہلیت پر تھا) کے پاس فیصلہ کے لیے جاتے۔
ایک بار اس کے پاس ایک قبیلہ کا وفد آیا اور اس سے کہا: اے عامر! ہمارے درمیان ایک ایسا شخص ہے جس کے دو عضو ہیں ایک مذکر کا اور ایک مؤنث کا، ہم اسے وراثت دینا چاہتے ہیں، لیکن ہم اس پر مذکر کا حکم لگائیں یا مؤنث کا؟
لہذا یہ عامر بن ظرب جو کہ ایک مشرک تھا چالیس دن تک (جواب دینے سے) رکا رہا، اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ انہیں کیا جواب دے۔
اس کی سخیلہ نامی ایک لونڈی تھی جو اس کی بکریاں چرایا کرتی تھی، چالیسویں دن اس نے کہا: اے عامر مہمانوں نے تمہاری بکریوں کو کھالیا ہے اور اب تھوڑی سی بچی ہیں۔۔مجھے بتاؤ کیا مسئلہ ہے؟
اس نے کہا تیرا کیا کام؟ جا تو بکریاں چرا۔
پر اس نے خوب اصرار کیا اور جب زیادہ اصرار کیا تو اس نے لونڈی کو سوال سے آگاہ کیا۔۔۔اور اس سے کہا اس جیسی مصیبت مجھ پر نہیں ٹوٹی۔
لونڈی نے اس سے کہا: عامر! تم کہاں ہو؟ مال کو مبال (مخرج پیشاب) کے پیچھے لگا دو۔
یعنی: اگر یہ شخص مرد کے آلے سے پیشاب کرتا ہے تو اس پر مذکر کا اور اگر عورت کے عضو سے کرتا ہے تو مؤنث کا حکم لگائیں۔
عامر نے اپنی لونڈی سے کہا: اے سخیلہ تم نے اس مصیبت کو مجھ سے دور کردیا۔۔۔پھر عامر نے ان لوگوں کو مسئلہ بتایا۔
اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ ایک مشرک ہے جسے نہ جنت کی کوئی امید ہے، اور نہ جہنم کا ڈر، اور وہ اللہ کی عبادت بھی نہیں کرتا ہے، پھر بھی وہ ایک مسئلہ پر فتوی دینے کے لیے چالیس دن تک توقف کرتا ہے، لہذا اس شخص کا کیا حال ہو جو جنت کی امید رکھتا ہے اور جہنم سے ڈرتا ہے۔۔۔۔پھر جب اسے افتاء کے منصب پر فائز کیا جائے اور جب اس سے اللہ عزوجل کا کوئی حکم پوچھا جائے تو اسے کس قدر تحری و تلاش (جد و جہد) کی ضرورت ہے۔
المصدر :
البداية والنهاية لابن كثير: (٢/ ٢٢٢).
0 تبصرے