دارالعلوم دیوبند: یوم تاسیس کے حوالے سے!

Views

دارالعلوم دیوبند: یوم تاسیس کے حوالے سے! 

Darul Uloom Deoband


                کل دوپہر سے آج رات بارہ بجے تک دیوبند اور سہارن پور وغیرہ میں نیٹ بند رہا جس کی بنا پر دارالعلوم دیوبند کے یوم تاسیس پر کچھ رقم نہیں کرسکا۔ابھی جب کہ رات کا تقریباً ڈیڑھ بجا ہے،مجھے دارالعلوم کا ابتدائی دور یاد آرہا ہے۔وہ بھی کیا دن تھے جب انگریزوں نے اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ ہندوستان پر تسلط جمایا اور سیکڑوں برس چلنے والی مسلم حکمرانی کا جنازہ نکال دیا۔علما دار پر لٹکائے گئے،محدثین گولیوں سے بھون دیے گئے،سپہ سالاران اسلام کو سولی پر چڑھادیا گیا اور گویا اسلام کا نقشہ مٹانے کے لیے فرنگی سامراج اور ان کے ہمنواؤں کی طرف سے ہر سخت اقدام کیا گیا ؛ مگر چند درویش ایسے بھی تھے جو اعلائے کلمۃ اللہ اور دفاع اسلام کے جذبے سے سر شار تھے،جن کے سینوں میں توحید کے انگارے بھڑک رہے تھے،جن کے سینے ایمانی عزام سے بھرپور تھے اور جو اقامت دین کے جذبے سے سر شار تھے۔جو نہتے ضرور تھے ؛ مگر جن کے دل ایمان و یقین سے معمور تھے۔جن میں حضرت حاجی عابد حسین جیسا سید السادات بھی تھا،جس کے خلوص کی مہک آج بھی دارالعلوم میں موجود ہے،تقریبا چالیس سال تک دارالعلوم دیوبند کے ماحول کو اپنی شاندار تدریس،بےمثال اسلوب اور شاعرانہ بانکپن سے سحرزدہ کرنے والا صاحب علم و قلم،محدث یگانہ،استاذ العلماء والمحدثین مولانا ریاست علی ظفر بجنوری رحمہ اللہ اپنے الہامی ترانے میں" حاجی عابد حسین"  کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: 
عابد کے یقیں سے روشن ہے،سادات کا سچا صاف عمل 
آنکھوں نے کہاں دیکھا ہوگا،اخلاص کا ایسا تاج محل! 
دارالعلوم دیوبند کی ابتدا کا ذکر آتا ہے،تو تاریخ کا ایک دفتر کھلنے لگتا ہے۔اس کی بنیادوں میں حافظ ضامن شہید کا لہو بھی ہے،اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کی آہ سحر گاہی بھی۔اس میں حجۃ الاسلام قاسم نانوتوی کی جد وجہد بھی شامل ہے اور رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی فکرو کڑھن بھی۔یہ علمائے سہارن پور کا وہ وقیع کارنامہ ہے کہ جو اسلامیان عالم کے لیے دور تنزلی کی سب سے بڑی،سب سے عظیم،سب سے نافع،سب سے زیادہ انمول سوغات ہے۔علم و ہنر کی یہ چہار دیواری آج بھی ہمیں مدینہ و بغداد کی ان علمی درسگاہوں کی یاد دلاتی ہے جن سے ہمارا شاندار ماضی وابستہ ہے۔
آج کا دن تمام منتسبین دارالعلوم کے لیے "یوم عزم" ہے،ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم ان سلف کے نام لیوا اور اس علمی تراث کے نمائندے ہیں جنھوں نے مخالف ماحول میں اسلام کا وہ چراغ روشن کیا کہ جس کی کرنیں آج پوری دنیا پر پڑ رہی ہیں۔اس درسگاہ کا اگر کوئی مجسم نمونہ دنیا کے سامنے لایا جائے تو " شیخ الہند" کی تصویر بن کر سامنے آئے گی،اسی شیخ الہند کی روح ہم سے مخاطب ہے کہ اے بلبلان دیوبند! 
تمھیں پھر سے استاذ نانوتوی کے سبق کو دہرانا ہوگا! 
تمھارے سینے امداد اللہ مہاجر مکی جیسے سوز سے بھرپور ہونے چاہیے! 
گنگوہی کا تفقہ تمھارا ہمرکاب ہو! 
اور حافظ ضامن کا جذبۂ شہادت تمھارے طویل راستے کی حدی ہو۔۔۔۔۔۔
اٹھو! 
اور ایک بار پھر دنیا سے اپنا لوہا منواؤ!! 
دنیا کو بتاؤ کہ اسلام کے بغیر کوئی نظام عالمگیر نہیں اور اسلام کے علاوہ کسی کے پاس کائنات کی بے چینی کا علاج نہیں۔۔۔۔!!
ہے عزم حسین احمد سے بپا ہنگامہء گیر و دار یہاں 
شاخوں کی لچک بن جاتی ہے باطل کے لیے تلوار یہاں

(انس بجنوری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے