تم بس مانگو
خوب جان لو ! دعاء انبیاء کی سنت
ہے.. صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ دعاء قضاء کو ٹالتی ہے اور بداعمالی انسان کے رزق
کو کم کرواتی ہے.. جس طرح دوا دارو وغیرہ ایک تقدیر کو دوسری تقدیر سے بدلنے کے
مادی اسباب ہوئے اور خود شریعت نے انہیں اختیار کرنے کی تلقین کر دی , اسی طرح
دعاء اور ذکر وغیرہ ایک تقدیر کو دوسری تقدیر سے بدلنے کے روحانی اسباب ہوئے اور
شریعت نے انہیں اختیار کرنے کی اس سے کہیں بڑھ کر تلقین کر رکھی ہے..
عقلاء کے ہاں جس طرح یہ کہنا غلط
ہے کہ دوا دارو کا کیا فائدہ اور زہر کھانے کا کیا نقصان کہ جب تقدیر طے ہے , اسی
طرح یہ کہنا غلط ہے کہ دعاء کرنے کا کیا فائدہ اور دعاء سے غفلت و اعراض کا کیا
نقصان جب جو ہونا ہے وہ تو پہلے سے طے ہے.. قضائے قدیم کو دعاء نہ کرنے کی بنیاد
بنانا گمراہوں کا طریقہ ہے..
خوب جان لو ! خدا پر وقت اور زمانے کا گزر نہیں.. جو دعاء تم ابھی ہاتھ اٹھا کر اُس کے حضور کر رہے ہو ، تمہارا یہ گڑگڑانا اور گھگھیانا اُس وقت بھی اتنا ہی اُس کے سامنے تھا جب اُس کی تقدیر کا قلم چل رہا تھا جتنا کہ اب جب یہ واقعہ ہو رہا ہے.. تقدیر کا ’پہلے‘ ہونا اور دعاء کا ’بعد میں‘ ہونا تمہارے حساب سے ہے نہ کہ اُس کے حساب سے.. لہٰذا انبیاء کی بات پر بھروسہ کرو.. اُس سے رو رو کر التجاء کرو کہ ہر وہ فیصلہ جو تمہارے حق میں برا ہے وہ محض اپنے فضل اور احسان سے تمہیں اس سے بچا لے..
یقین رکھو ! تمہاری یہ دعاء قبول ہونے والی نہ ہوتی تو انبیاء کبھی تمہیں اِس گریہ زاری کی تلقین نہ کرتے.. اب خود بتاؤ اس سے بڑھ کر کیا چیز تھی جو انبیاء تمہیں لا دیتے.. تصور کرلو !
یہ ناتوانی کے ہاتھ اُس کے آگے
اٹھا لو تو قسمت کے فیصلے اپنے حق میں کروا لو.. ذرا روؤ اور اپنا نام جہنمیوں سے
باہر کروا لو اور جنتیوں میں لکھوا لو.. کوئی چیز ایسی ہے ہی نہیں جو تم اس وجہ سے
نہ مانگو کہ اس کے فیصلے تو ہو چکے , اب میں کیا مانگوں.. وجہ وہی کہ ’ہو چکے‘ اور
’ہوں گے‘ تمہارے حساب سے ہے اُس کے حساب سے نہیں.. تم بس مانگو !
0 تبصرے