حضرت ابوبکرصدیق ؓ :
اولوالعزمی، برداشت اور عدل
:
-----------------------------------------
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو پورے
طور پر اپنانے سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے تھے کہ قوی ترقی
اس وقت تک ناممکن ہے جب تک مشکلات اور مصائب کو صبر و استقلال سے جھیلنے اور اپنے
اندر ان پر قابو پانے کا ملکہ پیدا نہ کیا جائے۔ درحقیقت قوموں کی حیات و ممات
کاراز اسی گر کو اختیار کرنے یا ترک کردینے میں مستور ہے۔ ہر وہ قوم جو عزت کی
خواہاں اور اقوام عالم میں اپنا ایک علیحدہ وممتاز مقام پیدا کرنے کی خواہش مند ہو
جو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنے پاس رکھتی ہو اور اسے یقین
ہو کہ صرف اسی کے پیش کردہ پروگرا م پر عمل کرنے میں انسانیت کی جو نجات اور دنیا
کی فلاح و بہبود مضمر ہے۔ اس کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اپنے اندر قوت برداشت پیدا
کرے۔ اس کے راستے میں خواہ مشکلات کے پہاڑ ہی کیوں نہ حائل ہوجائیں لیکن اسے عزم و
استقلال سے ہر دم اپنا قد م آگے ہی بڑھانا چاہیے۔ مشکلات خواہ کتنی ہی ہیبت ناک
اور مصائب کتنے ہی حوصلہ شکن ہوں لیکن باہمت قوم کو انہیں پرکاہ کے برابر بھی وقعت
نہ دینی چاہیے۔ اور راستے کی تمام دشواریوں اور ادائے حق کی راہ میں تمام رکاوٹوں
پر نہایت جرات مندانہ اولو العزمانہ قابو پا کر منزل مقصود کی جانب قدم بڑھاتے
رہنا چاہیے۔
ان اسباب کی محافظت اس وقت اور بھی ضروری ہو جاتی ہے جب
ان قوموں کے لائحہ عمل اور قوت کی بنیاد عدل کے قیام اور ظلم و ستم کی بیخ کنی پر
استوار ہو۔ اکثر سلطنتوں کاقیام محض اس لیے عمل میں آیا کہ انہوں نے عدل و انصاف
کو اپنی اساس بنایا اور اسی کے سہارے استحکام حاصل کیا ۔ اس کے برعکس بیشتر سلطنتیں
مدت دراز تک اپنی شان و شوکت دکھانے کے بعد محض اس وجہ سے قلیل ترین عرصے میں
نابود ہو گئیں کہ انہوں نے عدل کے اہم ترین رکن کو ترک کر دیا تھا۔
حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اپنے القا کی روشنی میں معلوم کر لیا
تھا کہ اسلام عدل کا علم بردار ہے اور ذات پات اور نسل کی بنا پر بنی نوع انسان کے
درمیان کسی تفریق کا حامی نہیں۔ اسی وجہ سے اس کی دعوت کسی ایک قوم کے لیے مخصوص
نہیں بلکہ تمام بنی نو ع انسان کے لیے عام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے زمانہ مبارک میں عربوں کے علاوہ غلاموں اور عجمیوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام
میں داخل ہوئی لیکن کسی غلام اور عجمی سے نفرت یا حقارت کا برتاو کرنا تو کجا
اسلام نے ان کی ذلت و نکبت عز و شرف میں تبدیل کر دی اور ان کا رتبہ اس قدر بلند
کر دیا کہ آج بھی ان کا ذکر آنے پر ہر مسلمان فرط عقیدت سے سر جھکا دیتا ہے۔ ان
لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلوک کا اندازہ اس امر سے ہو
سکتاہے کہ حضرت سلمان فارسیؓ آپ کے مقربین
خاص میں سے تھے حضرت زید بن حارثہؓ کو آپ
نے آزاد کرکے اپنا متبنی بنا لیا تھا۔ غزوہ موتہ کے وقت لشکر کا قائد بھی انہیں کو
بنایا تھا۔ اس سے پہلے بھی متعدد اہم ذمہ داری کے کام ان کے سپرد کیے تھے۔ حضرت زید
ؓ کے بیٹے حضرت
اسامہ ؓ کو اپنی وفات سے قبل شام پر حملہ کرنے والی فوج کا سردار مقرر کیا
اور تمام بڑے بڑے مہاجرین و انصار کو جن میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی شامل تھے ان کی ماتحتی میں دیا اور بازان
فارسی کو یمن کا حاکم مقرر فرمایا۔
ان مثالوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے نزدیک محض عربی یا معزز قبیلے کا فرد ہونا کسی شخص کی فضیلت کے لیے
کافی نہ تھا آپ کے پیش نظر فضیلت کی کسوٹی تقویٰ اور صرف تقویٰ تھی۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاص مشیروں اور مقرب صحابہؓ پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہو
جاتا ہے کہ آپ کے محبوب صحابیؓ کے فرد بننے کا شرف صر ف انہیں لوگوں کو حاصل ہوا
جنہوں نے ایمان و اخلاص پر قابل رشک ترقی کی اور جو دینی و ملی مفاد کی خاطر اپنی
جان مال عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لیے ہر لحظہ مستعد رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربوں کے دلوں سے ان کی نسبی شرافت‘ عزت اور فضیلت کا غرور
بالکل نکال دیاتھا اور عربی اور عجمی آذاد اور غلام کا فرق مٹا کرانہیں ایک سطح پر
لا کر کھڑا کیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے بھی اپنے آقا کی اس سنت پر پوری طرح سے عمل کیا
اور وہ لوگوں کے درمیان صحیح اسلامی مساوات قائم کرنے میں آخر وقت تک کوشاں رہے۔
اسی مساوات کا اثرتھا کہ مسلمان ایک ایسی متحدہ قوت بن
کر اٹھے جس کا مقابلہ کرنے سے ایرانی فوج اور رومی افواج قاہرہ عاجز آ گئیں اور
انہیں ان مٹھی بھر لیکن آہنی طاقت والے عربوں کے سامنے بھاگتے ہی بن پڑی۔
حضرت ابوبکرؓ کو اس حقیقت کا بھی پوری طرح ادراک تھا کہ
اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور اس کی دعوت کا دائرہ صرف جزیرہ عرب تک محدود نہیں
ہے بلکہ اس کے مخاطب دنیا کے آخری کناروں تک بسنے والے انسان ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیرون عرب کے بادشاہوں اور فرماں رواوں کو
کثرت سے تبلیغی خطوط اور فرامین ارسال فرمائے تھے۔
یہ امر تسلیم کرنے کے ساتھ ہی ہر مسلمان کا فرض ہو جاتا
ہے کہ اس نے جس عظیم الشان نعمت سے حصہ لیا ہے اسے صرف اپنے تک محدود نہ رکھے بلکہ
دوسروں کو بھی اس نعمت سے حصہ عطا کرے۔ اور دین خدا کی اشاعت میں جان تک کی بازی
لگانے سے دریغ نہ کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کا پیغام بلا
لحاظ قوم و ملت سب لوگوں تک پہنچا دیا۔ آپ کی تقلید میں آپ کے خلفاء کا بھی یہی
فرض تھا کہ وہ دعوت اسلام کو زمین کے کناروں تک پہنچاتے اور اس راہ میں کسی قربانی
سے دریغ نہ کرتے۔
حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے یہی کیا اور اسلام کو اقصائے عالم
تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ سعی فرو گزاشت نہ کیا۔ اس راہ میں انہیں شدید مشکلات
اور مہیب مصائب سے دوچار ہونا پڑا لیکن انہوں نے ابتدائے خلافت ہی سے جو عزم کر لیا
تھا اس میں آخری لمحے تک مطلق کمی نہ آنے دی اور اپنی جدوجہد کو پایہ تکمیل تک
پہنچاکر ہی چھوڑا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مردانہ وار کوششوں اور اولو العزمی کا نتیجہ
تھا کہ اسلامی سلطنت تھوڑے ہی عرصے میں معلومہ دنیا کے اطراف تک پہنچ گئی اور صدیوں
تک اسی سلطنت نے دنیا میں تہذیب و تمدن کا علم بلند اور علم و عمل کا چراغ روشن کیے
رکھا۔
لمبے عرصے تک دنیا پر شان و شوکت سے حکمرانی کرنے کے بعد
اسلامی سلطنت پر بھی دوسری حکومتوں اور سلطنتوں کی طرح زوال آنا شروع ہوا اور
بالآخر وہ انتہائی نکبت اور پستی کی حالت میں پہنچ گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا
اس نکبت اور پستی کا سبب اسلام کے وہ بنیادی اصول تھے جن کا وہ علم بردار بن کر
کھڑاہوا تھا یا ان بنیادی اصولوں کو پس پشت ڈال دینے کے باعث مسلمانوں کو اضمحلال
اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑا؟ جو بھی شخص اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرے گا وہ اسی
نتیجے پر پہنچے گا کہ اسلامی سلطنت کا زوال اس وقت سے شروع ہوا جب مسمانوں نے
اتحاد جیسی نعمت کو خیر باد کہہ دیا۔
ابتدا میں جزیرہ عرب میں بسنے والے مسلمانوں کے درمیان
معرکے سر ہونے لگے۔ بعد ازاں عربوں اور عجمیوں کے درمیان خانہ جنگیوں کا ایک
لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جس نے مسلمانوں کی طاقت و قوت عز و شرف شان و شوکت اور
رعب و داب کو ملیا میٹ کر دیا ۔
اس عبرت ناک داستان کا تفصیل کے ساتھ بیان آگے آئے گا۔
اس کی طرف اشارہ کر کے اپنے بیان کو ہم فی الحال صرف عہد صدیقؓ تک محدود کریں گے
جو اگرچہ بے حد مختصر تھا لیکن اثر پذیری کے لحاظ سے بڑی بڑی سلطنتوں پر حاوی تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کی جدوجہد کے بعد قائم ہونے والی سلطنتیں اڑھائی سال کی اس
مختصر ترین حکومت کے مقابلے میں ہیچ تھیں۔
جاری
ہے ...
0 تبصرے