اس طرزعمل سے بچیں

Views

اس غیرذمہ دارانہ طرز عمل سے بچیں

 

گلزارصحرائی

سوشل میڈیا پر اس وقت ایک مضمون بہت گردش کررہا ہےاورجسے دیکھیے وہ اسے اپنے پیج پرپوسٹ کررہا ہے یا اپنے واٹس ایپ سے فارورڈ کررہا ہے۔ مضمون وید پرکاش اپادھیائے نامی مصنف کی ایک کتاب ‘کلکی اوتارकल्कि अवतार سے متعلق ہے۔ جس کے کچھ حوالے (بغیر صفحہ نمبر) کے دیے گئے ہیں، جن میں کلکی اوتار کی کچھ وہ صفات بیان کی گئی ہیں جو نبیﷺ کی صفات سے ملتی جلتی ہیں، مصنف کے حوالے سے مضمون نگار کا یہ کہنا ہےکہ کلکی اوتار کے طورپر ہندو دھرم گرنتھوں میں دراصل محمد ﷺ کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ مضمون نگار (جنھوں نے نہ جانے کیوں اپنا نام نہیں لکھاہے) کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کتاب نے دنیا بھر میں دھوم مچا رکھی ہے چنانچہ مضمون کے آخرمیں وہ  یہ گزارش کرتے ہیں کہ اس مضمون کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں تاکہ غیر مسلم کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ مضمون نگار نے مضمون اردو میں لکھا ہے،جسے غیر مسلم کیا خود تمام مسلمان بھی نہیں جانتے۔ کتاب کا جو ٹائٹل سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے وہ کتاب بھی اردو میں ہے، حسن ظن سے کام لیتے ہوئے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ بلا شبہ مذکورہ کتاب ہندی اور انگریزی میں بھی ہوگی۔ مگر سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ مضمون نگار نے اس سے حوالے نقل کرتے وقت بہت لاپروائی سے کام لیا ہے اور کوئی صفحہ نمبر اور اصل ہندو دھرم گرنتھوں کا کوئی اشلو ک وغیرہ کوٹ نہیں کیا۔ سب سے زیادہ ذہنی کوفت تو یہ دیکھ کر ہوتی ہے کہ جاہل مضمون نگار کو کتاب کا نام بھی ٹھیک سے لکھنا نہیں آتا اور وہ لفظ ’کلکی कल्कि کو ہر جگہ بے تکلفی سے ’کالکی‘ لکھتے نظر آتے ہیں۔

ویسے ایک طرح سے اچھا ہی ہےکہ گمنام مضمون نگار نے یہ مضمون ہندی میں نہیں لکھا،ورنہ ہندی داں اہل علم اسے زبردست تنقید کا نشانہ بناتے اور مضمون نگارمذاق کا نشانہ بھی بن جاتے۔شاید موصوف اسی لیے گمنام رہنا چاہتے ہیں۔

مجھے بہت حیرت ہے کہ بہت سے سنجیدہ مزاج کے لوگ بھی اس گمنام مضمون نگارکی ناقص تحریر کو اپنےاپنے پیچ سے پوسٹ کررہے ہیں، غالباًوہ اسے دین کی بہت بڑی خدمت سمجھ رہے ہوں گے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ تقابلی مطالعہ پر مبنی مضمون بہت گمبھیر مسئلہ ہے اور اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، خصوصاً صحیح الفاظ اور درست حوالہ جات کا پورا لحاظ رکھنا ہوتا ہے، ورنہ فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہوسکتاہے۔

آپ خود ہی سوچیں، کل کو کوئی قرآن پڑھے بغیر یوں ہی سنی سنائی باتوں کو قرآن سے منسوب کردے اور پھر بغیر حوالےیہ بیان کرنے لگےکہ یہ اور یہ بات قرآن میں بیان ہوئی ہے تو آپ کا کیا ردِّ عمل ہوگا؟ سوچیے، جواب خود ہی مل جائے گا۔ مذکورہ مضمون کی بھی یہی حیثیت ہے۔

بہ شکریہ علم وکتاب

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے