باسمہ تعالی
سنوار مجاہدین کا شہسوار
از قلم: ابو سعد چارولیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزارہا آنکھیں تھیں جو کہہ رہی تھیں کہ کاش! ہم نے جو دیکھا وہ غلط ہو، لکھوکھا کان تھے جو ابو عبیدہ کی آواز میں سننا چاہتے تھے کہ: اے اللہ کے دشمنو! تمہاری موت کا دوسرا نام سنوار ابھی زندہ ہے، سچ پوچھو تو کروڑوں دھڑکنیں اس آس میں رکی ہوئی تھیں کہ سنوار ''یحیی''رہے "لایحیی"نہ ہو، مگر ایک شیر تھا جو مدتوں سے آس لگائے بیٹھا تھا کہ راہِ خدا میں شہادت کی آرزو کب پوری ہوگی! جو جیلوں اور جلسوں میں، کانفرسوں اور سرنگوں میں ہر جگہ یہ کہتا پھرتا تھا: الموت فی سبیل اللہ اسمی امانینا، بالآخر دنیا ہار گئی اور اسلام کا شیر جیت گیا، ہماری تمنائیں اور آرزوئیں اس کے شوقِ شہادت کے سامنے ڈھیر ہوگئیں، ہمارے پھسپھسے وسوسے اس کے ہر دم تازہ ولولوں کی تاب نہ لاسکے اور وہ فمنھم من قضی نحبہ (اسماعیل ہانیہ)کے بعد ومنھم من ینتظر (سنوار)کو سچ کر دکھا گیا
وہ جو تجھ بِن نہ جینے کو کہتے تھے
سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے
کون سنوار! عالم اسلام کے دلوں کی دھڑکن، عوام کی آنکھوں کا سرمہ، خواص کی دعائے نیم شبی کا حصہ، ؑشہیدوں کے لیے مادرِ مہرباں، مجاہدوں کے لیے اتالیقِ اعظم، غداروں کے لیے شمشیرِ برّاں، منافقوں کے لیے برقِ بے اماں اور خبیث الفطرت، نجس الخلقت یہودیوں کے لیے اللہ کا عذاب!
اس نے بائیس سال تک سنت یوسفی بھی ادا کی اور پھر چودہ سال غزہ میں شعب ابی طالب کی سنت بھی زندہ کرتا رہا، اس کا کٹا ہوا بازو جعفر طیار کی یاد دلاتا ہے تو اسی بازو پر تار باندھ کر لڑنے کا انداز شاہینِ بدر: معاذ بن عفرا کی تاریخ دہراتا ہے، وہ اسیروں کے لیے ابو بصیر کا جانشین تھا اور منافقوں کے لیے عمر فاروق کی اولاد،جاسوس اس کے کام سے لرزتے اور غدار اس کے نام سے کانپتے تھے، دشمن اسے ''خان یونس کا قصاب'' کہتا تھا، یہودی ناگنیں اپنے بچوں کو اس کے نام سے ڈرایا کرتی تھیں اور یہودی فوجی کتے اس کے تصور سے پیشاپ کرجاتے تھے ۔
محلوں میں بیٹھ کر عیاش حکمرانوں کے سڑے ہوئے لونڈے پوچھتے ہیں کہ سنوار کون تھا،تیرے باپ سے پوچھ کہ وہ تم سب کا باپ تھا
ہمیں ڈراسکے یہ زمانے میں دم نہیں
زمانہ ہم سے ہیں ہم زمانے سے نہیں
نام نہاد مفکرین کہاں ہیں جو کہتے تھے کہ سنوار سرنگوں میں گلچھرّے اڑا رہا ہے آؤ دیکھو ظالمو! ہ بھی ملبے تلے دبا پڑا ہے! لاؤ ان بکے ہوئے تجزیہ نگاروں کو جو کہتے نہ تھکتے تھے کہ قیادت موج کررہی ہے اور عوام جھوجھ رہی ہے، نسلی بزدل اور پشتینی کمینے یہودیوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم جس کو سرنگوں میں کتوں کے مانند سونگھتے پھررہے ہیں وہ ہمارے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوگا، مردود نیتن یاہو کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ سنوار انسانی ڈھالوں کے بغیر، محافظوں سے دور اپنے مجاہد بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر صف اول میں لڑ رہا ہوگا!بدمعاش و بدکار اسرائیلی وزیر دفاع: یوآؤ گینلنٹ کو کون بتائے کہ قائد اسی طرح صف اول میں خون کے آخری قطرے تک لڑتا ہے، تل ابیب کے آہنی حجروں میں بیٹھ کر اسکرین نہیں تَکا کرتا! مومن کی شہادت بھی عجب چیز ہے وہ مومن و منافق دونوں کے چہروں سے نقاب الٹ دیتی ہے، اہل اللہ تڑپ رہے ہیں کہ قائد بطل حریت چل بسا اور ذلیل دنیا کے خسیس کتے رقص کررہے ہیں کہ ان کی عیاشیوں، غداریوں اور سازشوں کی راہ میں چٹان بن کر حائل ہونے والا سنوار نہ رہا، دشمن ناچ رہا ہے کہ '' طوفان اقصی '' بپاکرنے والا سنوار ''مرگیا'' اور شہید کا خاندان روتے ہوئے سجدۂ شکر میں پڑا ہے کہ وہ ''امر ہوگیا''، عالم اسلام چاہتا تھا کہ اس کا نام یحیی ہے، وہ زندہ رہے گا، آؤ اب قرآن کی بھی تو سنو وہ بھی یہی صدا لگاتا ہے کہ ہاں وہ زندہ رہے گا: ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء ولکن لا تشعرون!
دشمن چاہتا تو نعش اٹھاکر سرنگوں میں لے جاتا، سازشیں رچتا، طرح طرح کے جھوٹے ویڈیوز بناتا اور زرخرید میڈیا سے اعلان کرواتا کہ ہم نے سنوار کو سرنگوں میں چوہے کی موت مارا مگر اس کی مت ماری گئی کہ شہید کے لاشے کا، قائد کے لڑنے کا اور اس کے زخمی ہونے کا فی الفور ویڈیو جاری کر بیٹھا، دنیا نے دیکھا کہ تنہا شیر لومڑیوں کے ریوڑ سے لڑا اور خوب لڑا، میرے اللہ کو یہی منظور تھا کہ جن عمارتوں کے ملبے تلے غزہ کے پچاس ہزار نفوس خاک و خون میں تڑہے ہیں ان کا قائد و رہبر بھی اسی طرح جام شہادت نوش کرجائے، اور دنیا کو یہ پیغام دے جائے کہ ہم فنا ہونے والوں میں سے نہیں ہیں ۔
اسرائیلی فوجیو! تم اس کی وہ شہادت کی انگلی تو کاٹ کر لے گئے جس کو لہرا لہرا کر وہ تقریر کرتا تھا کہ ہم خدائے وحدہ لاشریک لہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے مگر وہ درمیانی انگلی کاٹنا بھول گئے جس سے وہ پانچ دہائی تک تمہارے پچھواڑے کا علاج کرتا رہا،
خنزیر و بندر کی اولاد کا سب سے نیچ ترین خنزیر و بندر : نیتن یاہو کہتا ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، ہاں ہاں او دشمنِ خدا! جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ جنگ ہم نے شروع کی تھی اور ہمیں ختم کریں گے، خیبر سے باب اللد تک کی داستان خون جگر سے ہم نے رقم کی ہے اور ہم ہی رقم کرتے رہیں گے، یہاں ایک سنوار نہیں ہزاروں سنوار ہیں، یہاں ایک ہانیہ نہیں لاکھوں ہانییے ہیں، یہاں'' ضیف '' بھی ہے جو خاک و خون سے میزبانی کرنا جانتا ہے، سنوار مرنے کے لیے خان یونس کے قصبے سے نہیں اٹھا تھا تمہیں مارنے کے لیے اٹھا تھا، اس کے جیالے اس کا یہ مشن پورا کرکے رہیں گے، ممکن ہے غزہ فنا ہوجائے، ہوسکتا ہے حماس نہ رہے، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ قسامی ناپید ہوجائے مگر خدائے پاک کی قسم! نبی السیف (صلی اللہ علیہ و سلم) کے نام لیوا سچے مجاہدین اقصی کے ارداگرد سے کبھی ختم نہیں ہوں گے، غزہ کے ان ننھے منے بچوں کو غور سے دیکھو ان میں تمہیں سنوار کی پرچھائیاں نظر آئیں گی، اپنے سے زیادہ وزنی پانی کا ڈرم اٹھاکر مسکراتے ہوئے اس بچے کو زوم کرکے دیکھو ہانیہ کی حسین مسکراہٹ یاد آجائے گی،یاد رکھنا یہ ہماری طرح بزدل و ڈرپوک نہیں،یہ حکمت شناس و مصلحت آشنا نہیں، یہ ہمت کے جیالے اور حوصلے کے جوان ہیں، یہ روئے زمین پر اللہ کی شان اور برہان ہیں، اقصی کے یہ دیوانے، عمر فاروق کے یہ فرزند، ایوبی کے یہ نام لیوا، سنوار کے یہ جانشین پاتال تک تمہارا پیچھا کریں گے حتی کہ تم درختوں کے پیچھے چھپ کر کپکپاتے ہوئے موت رہے ہوں گے وہاں بھی یہ پہنچ جائیں گے! ہاں میرے دشمنو! پکچر ابھی باقی ہے ۔
سلام اے سرزمین غزہ کے بے لوث و نڈر قائد سلام !
ایک دور افتادہ ہندی کا سلام ملبے تلے دبے تیرے بے گور کفن لاشے کو!
ایک گنہگار مسلمان کی بہتی آنکھوں کا سلام تیرے تار بندھے زخمی ہاتھوں کو
ایک کمزور ایمان والے کے دھڑکتے دل کا سلام خون سے تربتر تیری پیشانی کو
جو ساری دنیا سے کہہ رہی ہے
میں ڈرا نہیں میں جھکا نہیں کہیں چھپ چھپا کے کھڑا نہیں
جو ڈٹے ہوئے محاذ پر مجھے ان صفوں میں تلاش کر ۔
0 تبصرے