حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

Views

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ:


ابوبکر صدیقؓ

امیر الحج و امامت 

امیر الحج :

فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے تمام رکاوٹیں دور ہو چکی تھیں۔ اور آپ اسلام کے تمام فرائض و واجبات نہایت آسانی سے بجا لا سکتے تھے۔ حج بھی ایک دینی فریضہ ہے لیکن وفود کے جوق درجوق مدینہ آنے کی وجہ سے آپ کو مکہ جانے اور بیت اللہ کا حج کرنے کی فرصت نہ مل سکی۔ اس لیے فتح مکہ کے اگلے سال آپ نے اپنی جگہ حضرت ابوبکرؓ کو امیر الحج مقرر فرما کر روانہ کیا۔ وہ تین سو مسلمانوں کو لے کر مکہ پہنچے اور وہیں حج کے فرائض انجام دیے۔ اسی حج کے موقع پر حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے اور بعض روایات کے مطابق خود حضرت ابوبکرؓ نے اعلان کیا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا۔ انہوں نے مشرکین کے لیے چار مہینے کی مہلت کا اعلان کیا کہ اس عرصے میں وہ مکہ چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں چلے جائیں ۔ اس وقت سے آج تک کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہیں کر سکا اور نہ آئندہ کر سکے گا۔


نماز پڑھانے کا حکم :

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علالت نے شدت اختیار کر لی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکرؓ لوگوں کونماز پڑھائیں۔ 

اس ذیل میں حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت قابل اندراج ہے کہ آپ فرماتی ہیں:

’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ بیمار ہوئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز کے لیے عرض کرنے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکرؓ سے کہہ دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ میں نے کہا ابوبکرؓ بہت رقیق القلب انسان ہیں۔ جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ضبط نہ کر سکیں گے اور اس طرح لوگوں کی نماز میں خلل پڑے گا ۔ اگر آپ عمرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں تو بہتر ہو۔ آپ نے یہ سن کر پھر فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ اس پر میں نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابوبکرؓ رقیق القلب ہیں وہ نما ز میں رونا شروع کر دیں گے اور لوگوں کی نماز میں خلل پڑے گا ۔ تم رسول اللہ سے کہو کہ وہ ابوبکرؓ کی جگہ عمر ؓ کو نماز پڑھانے کا حکم دیں۔ چنانچہ حفصہؓ نے جا کر یہی بات آپ سے کہہ دی۔ اس پر آپؐ نے فرمایا یقینا تم وہی عورتیں ہو جنہوں نے یوسفؑ کو بہلانے پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ ابوبکر ؓ سے کہو کہ وہ لوگوں کونماز پڑھائیں اس پر حفصہؓ نے مجھ سے کہا تم نے مجھے ناحق شرمندہ کرایا‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسب ارشاد حضرت ابوبکرؓ نے نماز پڑھائی۔ ایک دن ابوبکرؓ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ حضرت بلالؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کو نہ پا کر حضرت عمرؓ سے نماز پڑھانے کو کہا۔ حضرت عمرؓ بلند آواز تھے ۔ جب آپ نے تکبیر کہی تو اس کی آواز حضرت عائشہؓ کے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں تک پہنچی۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ ابوبکرؓ کہاں ہیں؟ اللہ اور مسلمان یہ بات پسند کرتے ہیں کہ ابوبکرؓ نماز پڑھائیں۔ 


بعض لوگ اس واقعے سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس طرح آپؐ نے اپنے بعد خلافت کا فیصلہ فرما کر ابوبکرؓ کو اپنا خلیفہ نامزد کر دیا تھا کیونکہ لوگوں کو نماز پڑھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کا پہلا مظہر ہے۔ 


بیماری کے دوران میں ہی ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:

’’اللہ نے اپنے بندے کو یہ حق دیا ہے کہ خواہ وہ دنیا کو اختیار کرے خواہ آخرت کو لیکن اس نے آخرت میں اللہ کے قرب کو اختیار کیا‘‘۔


حضرت ابوبکرؓ سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنا ذکر فرما رہے ہیں۔ وہ زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ ہچکی بندھ گئی اور انہوں نے کہا:

’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ؐ پر ہماری جانیں قربان اورہماری اولاد قربان ہو کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ سکیں گے‘‘؟


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا مسجد میں لوگوں کے گھروں کے جس قدر دروازے ہیں وہ بند کر دیے جائیں سوائے ابوبکرؓ کے دروازے کے۔ پھر ابوبکر ؓ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:


’’میں نے اپنے صحابہؓ میں سے ابوبکرؓ سے افضل کسی کو نہیں پایا اوراگر میں بندوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو وہ ابوبکرؓ کو بناتا لیکن ابوبکرؓ سے میرا تعلق ہم نشینی‘ بھائی چارے اور ایمان کا ہے یہاں تک کہ اللہ ہمیں اپنے پاس اکٹھا کرے‘‘۔   یہ روایت ابن ہشام کی ہے یہی حدیث صحاح میں مختلف الفاظ میں آئی ہے۔


وفات کے دن صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علیؓ اور فضل بن عباس کا سہارا لیے ہوئے مسجد میں تشریف لائے۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے۔ جب لوگوں نے آپؐ کو دیکھا تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اور وہ نماز ہی میں رستہ بنانے کے لیے ادھر ادھر سمٹنے لگے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارے سے انہیں اپنی جگہ رہنے کا حکم دیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ نے آہٹ سنی تو سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اس پر وہ اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے لگے تاکہ آ پ کے لیے جگہ خالی کر دیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اشارے سے اپنی جگہ ہی کھڑا رہنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ پھر آپ ابوبکرؓ کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے نماز پڑھی۔

نماز کے بعد آپ ؐ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں تشریف لے گئے اور کچھ دیر کے بعد آپ کو دوبارہ بخار آ گیا۔ آپؐ نے ایک برتن میں ٹھنڈا پانی منگوایا اور اسے اپنے چہرے پر ملنے لگے۔ اس سے تھوڑی دیر بعد آپ کی مقدس روح ملاء اعلیٰ کی طرف پرواز کر گئی ۔

جاری ہے ....

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے