وفات صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلمانوں میں سراسیمگی

Views

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ:

ابوبکر صدیق
وفات صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلمانوں میں سر اسیمگی

۱۲ ربیع الاول  ۱۱ھ مطابق ۳ /جون ۶۳۲ء؁   کو اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوار رحمت میں بلا لیا۔ اس دن صبح کے وقت آپ ؐ نے مرض میں کچھ افاقہ محسوس کیا جس پر آپ ؐ حضرت عائشہ ؓ کے حجرے سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے اور لوگوں سے کچھ باتیں کیں، اسامہ بن زید امیر لشکر کی کامیابی کی دعا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے لشکر کے ہمراہ مملکت روم کی جانب روانہ ہو جائیں۔ اس کے بعد آپ ؐ واپس حجرے میں تشریف لے آئے۔ کچھ ہی دیر بعدجب لوگوں کو اچانک معلو م ہوا کہ ان کا محبوب آقا ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا ہے تو ان کی حالت مارے غم کے دیوانوں کی سی ہو گئی۔ حضرت عمرؓ تلوار لے کر مسجد میں کھڑے ہو گئے اور کہنا شروع کیا:

’’جو شخص کہے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ آپؐ ہرگز فوت نہیں ہوئے بلکہ اپنے رب کے حضور تشریف لے گئے ہیں۔ اسی طرح جیسے حضرت موسیٰؑ تشریف لے گئے تھے اور چالیس رات غیر حاضر رہنے کے بعد واپس اپنی قوم میں آ گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یقینا واپس آئیں گے اور منافقین کے ہاتھ پاوں کاٹیں گے‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہؓ کے حجرے میں واپس پہنچانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ آپؐ کی صحت کے بارے میں مطمئن ہو کر مدینہ کے نواح میں اپنے گھر تشریف لے گئے تھے جو مقام سخ میں تھا۔ جب آپؐ کی وفات کی خبر پھیلی تو ایک شخص نے حضرت ابوبکرؓ سے جا کر خبر کی۔ وہ فوراً مدینہ آئے۔ مسجد نبوی میں حضرت عمرؓ تلوار ہاتھ میں لیے لوگوں کو دھمکا رہے تھے مگر انہوں نے اس طرف التفات نہ فرمایا بلکہ سیدھے حضرت عائشہؓ کے حجرے میں چلے گئے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسد اطہر رکھا ہوا تھا۔

 حضرت ابوبکرؓ نے رخ مبارک سے کپڑا ہٹایا اوررخسار کوبوسہ دے کر فرمایا : کیا ہی بابرکت تھی آپؐ کی زندگی اور کیا ہی پاکیزہ ہے آپ کی موت اس کے بعد حجرے سے باہر نکلے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا:


ألا من كان يعبد محمدًا ، فإنّ محمدًا قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حيّ لا يموت،

(اے لوگو! جو شخص محمدؐ کو پوجتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمدؐ فوت ہو گئے ہیں لیکن جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ یقینا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہ ہو گی)۔


اس کے بعد یہ آیت پڑھی:

وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا و سیجزی اللہ الشاکرین 

’’(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ اگر محمد ؐ وفا ت پا جائیں یا شہید کر دیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل (کفر کی جانب) پھر جاو گے؟ او ر جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے وہ اللہ کو ذرا سا بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور عنقریب اللہ شکر گزار بندوں کو نیک بدلہ دے گا)‘‘۔

جب حضرت عمرؓ کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت ہو چکے ہیں۔ اس یقین کا ان پر اتنا شدید اثر ہوا کہ ان کی ٹانگیں ان کا بوجھ نہ سہار سکیں اور وہ بے سدھ ہو کر زمین پر گر پڑے۔ 


آئیے ذرا غور کریں  اور اپنے نفوس میں اس واقعے کا بنظر غائر جائزہ لیں کہ جس سے حضرت ابوبکرؓ کی شخصیت کا ایک اور عظیم الشان پہلو واضح ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص ایسا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے صدمے کے اثر سے اس حد تک پہنچ سکتا تھا جس حد تک حضرت عمرؓ پہنچے تو وہ صرف ابوبکرؓ ہو سکتے تھے کیونکہ وہ آپ کے صفی اور ہم نشین تھے۔ انہوں نے اپنی ساری عمر آپ ؐ کی خدمت میں اور آپ ؐ کے لائے ہوئے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کر دی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو حق دیا ہے کہ خواہ وہ دنیا کی زندگی اختیار کر لے یا آخرت کی زندگی اور اس نے آخرت کی زندگی اختیار کر لی تو ابوبکرؓ کے روتے روتے ہچکی بندھ گئی اور آپ نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر ہماری جانیں اور ہماری اولاد قربان ہو کیا ہم آپ کے بعد زندہ رہ سکیں گے؟ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کاسخت صدمہ آپ کو حضرت عمرؓ کی طرح بے ہوش نہ کر سکا اورجب انہیں یقین ہو گیا کہ آپؐ ملا ء اعلیٰ کو تشریف لے گئے ہیں تو انہوں نے فوراً مجمع عام میں آ کر اس کا اعلان کا دیا۔ 


جو تقریر انہوں نے اس وقت کی اور جو آیت اس موقع پر پڑھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہیں اپنے نفس پر کتنا قابو حاصل تھا۔ اور ان میں مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی کتنی زبردست قوت موجود تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات جیسے عظیم الشان صدمے کی بھی خبر سن کر انہوں نےہوش وحواس بجا رکھے اور ان پر کسی قسم کی سراسیمگی طاری نہ ہوئی۔ ہماری حیرت و تعجب کی انتہا نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اوصاف ایک دوسرے شخص سے ظاہر ہوئے جو انتہائی رقیق القلب تھا اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتاتھا۔ 

یہ گھڑی مسلمانو ں کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے نہ صرف ایسے سخت وقت میں اپنے اوسان بجا رکھے بلکہ بعد میں بھی جب کبھی مسلمانوں پرکوئی برا وقت پڑا تو اسی قوت ارادی اور اولوالعزمی سے کام لے کر تمام خطرات کو دور کر دیا۔ یہی قوت ارادی تھی کہ جسے بروئے کار لا کر ابوبکرؓ نے مسلمانوں اور اسلام کو ایک ایسے فتنے سے بچا لیا جو اگر خدانخواستہ شدت اختیار کرلیتا تو نہ معلوم اسلام کا کیا حشر ہوتا۔

جاری ہے ...


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے