ادوارِ خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین :
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ :
ابتدائی حالات :
حضرت ابوبکرؓ قبیلہ تیم بن مرہ بن کعب سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا نسب آٹھویں پشت پرمرہ پر جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل جاتاہے تفصیل یہ ہے:
کلاب…قصعی…عبدمناف…ہاشم…عبدالمطلب…عبداللہ…محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مرہ ۔۔۔ تیم…سعد…کعب…عمرو…عامر…عثمان ابوقحافہ…ابوبکرصدیقؓ
مکہ میں بسنے والے تمام قبائل کو کعبہ کے مناصب میں سے کوئی نہ کوئی منصب ضرور سپرد ہوتاتھا۔ بنو عبد مناف کے سپر حاجیوں کے لیے پانی بہم رسائی اورانہیں آسائش پہنچانے کے انتظامات موجودتھے۔ بنو عبدالدار کے ذمے جنگ کے وقت علم برداری کعبہ کی دربانی اور دارالندوہ کا انتظام تھا۔ لشکروں کی سپہ سالاری خالد بن ولید کے اجداد بنو مخزوم کے حصے میں آئی تھی۔ خون بہا اور دیتیں اکٹھا کرنا بنو تیم بن مرہ کا کام تھا جب ابوبکرؓجوان ہوئے تو یہ خدمت ان کے سپرد کی گئی۔ خوں بہا اور دیتوں کے تمام مقدمات ان کے سامنے پیش ہوتے تھے اورجو فیصلہ وہ کرتے تھے اسے قریش کو منظور کرنا ہوتا تھا۔ خون بہا کے متعلق تمام اموال بھی ان کے پاس جع ہوتے تھے۔ اگر ان کے سوا کسی اور شخص کے پاس جمع ہوتے تھے تو قریش اسے تسلیم نہ کر تے تھے۔
بنو تیم کے جو اوصاف کتابوں میں بیان ہوئے ہیں وہ دوسرے قبائل سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ ان میں کوئی ایسا وصف مخصوص نہ پایاجاتا تھا جو انہیں ان کے ہم عصر دوسرے قبائل سے ممتاز کر سکے ۔ شجاعت سخاوت مروت‘ بہادری اورہمسایوں کی حمایت و حفاظت کی جو صفات دوسرے قبائل عرب میں موجود تھیں وہی بنوتیم میں بھی موجود تھیں۔
نام ‘ لقب اور کنیت :
حضر ت صدیقؓ کا نام عبداللہ تھا اور کنیت ابوبکرؓ والد کی کنیت ابوقحافہ تھی اورنام عثمان بن عامر۔ والدہ کی کنیت ام الخیر تھی اور نام سلمیٰ بنت صخر بن عامر۔
بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ اسلام لانے سے قبل ابوبکرؓ کا نام عبدالکعبہ تھا لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ مشر کانہ نام تبدیل کر کے عبداللہ رکھ دیا۔ بعض روایات کے مطابق انہیں عتیق بھی کہتے تھے وجہ یہ تھی کہ آپ کی والدہ کے لڑکے زندہ نہ رہتے تھے۔ انہوں نے نذر مانی کہ اگر ان کے لڑکا پیدا ہوا اور زندہ رہا تو وہ اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی اور اسے کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گی۔ چنانچہ جب ابوبکرؓ پیدا ہوئے تو انہوں نے نذر کے مطابق ان کا نام عبدالکعبہ رکھا۔ جوان ہونے پروہ عتیق (آزاد کردہ غلام) کے نام سے موسوم کیے جانے لگے، کیونکہ انہوں نے موت سے رہائی پائی تھی۔ بعض راویوں کا کہنا ہے کہ عتیق کے لقب انہیں نہایت سرخ و سفید ہونے کے باعث دیا گیا۔ اور روایات میں آتا ہے کہ ان کی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بعض لوگوں نے پوچھا کہ ان کے والد کو عتیق کیوں کہا جاتا ہے تو انہوں نے فرمایا:
’’ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا ھذا عتیق اللہ من النار (اللہ کا یہ بندہ آگ سے آزادہ شدہ ہے)۔‘‘
یہ روایت بھی اس طرح بھی آئی ہے کہ ایک مرتبہ ابوبکرؓ چند لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہیں دیکھ کر آپ نے فرمایا:
’’جو چاہتا ہو کہ آگ سے آزاد شدہ بندہ دیکھے وہ ابوبکر کو دیکھ لے۔ ابوبکرؓ ان کی کنیت تھی اور عمر بھر اپنی کنیت ہی سے موسوم کیے جاتے رہے۔ لیکن اس کنیت کا حقیقی سبب معلوم نہ ہو سکا۔ بعد میں آنے والے مورخین کہتے ہیں یہ کنیت اس لیے پڑی کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ...
انہ بکر الی الاسلام قبل غیرہ
بچپن او ر جوانی :
بچپن کا زمانہ انہوں نے اپنے دوسرے ہم سن بچوں کے ساتھ مکہ کی گلیوں میں کھیلتے گزارا۔ جوان ہونے پر ان کی شادی قتیلہ بنت عبدالعزیٰ سے ہوئی۔ ان سے عبداللہ اور اسماء پیدا ہوئے۔ اسماء کا لقب بعد میں ذات النطاقین قرار پایا۔ قتیلہ کے بعد انہوں نے ام رومان بنت عامر بن عویمر سے شادی کی ان سے عبدالرحمن اور عائشہؓ پیدا ہوئے۔ اس کے بعد مدینہ آ کر پہلے انہوں نے حبیبہ بنت خارجہ سے شادی کی پھر اسماء بنت عمیس سے اسماء کے بطن سے محمد پیدا ہوئے۔
مورخین نے اس کنیت سے مشہور ہونے کی ایک اور وجہ بھی لکھی ہے کہ عربی میں بکر جوان اونٹ کو کہتے ہیں ۔ چونکہ انہیں اونٹوں کی غور و پرداخت سے بہت دلچسپی تھی اوران کے علاج و معالجے میں بہت واقفیت رکھتے تھے اس لیے لوگوں نے انہیں ابوبکرؓ کہنا شروع کر دیا جس کے معنی ہیں اونٹوں کا باپ .
پیشہ ‘ حلیہ اور اخلاق و عادات :
قریش کی ساری قوم تجارت پیشہ تھی اور اس کا ہر فرد اسی شغل میں مشغول تھا چنانچہ ابوبکرؓ بھی بڑے ہو کر کپڑے کی تجارت شروع کر دی جس میں انہیں غیر معمولی فروغ حاصل ہوا اور آپ کا شمار بہت جلد مکے کے نہایت کامیاب تاجروں میں ہونے لگا۔ تجارت کی کامیابی میں ان کی جاذب نظر شخصیت اور بے نظیر اخلاق کو بھی بڑا خاصا دخل تھا۔
ان کارنگ سفید بدن دبلا داڑھی خشخاشی‘ چہرہ شگفتہ‘ آنکھیں روشن اور پیشانی فراخ تھی وہ بہترین اخلاق کے مالک‘ رحم دل اور نرم خو تھے ہوش و خرد عاقبت اندیشی اور بلندی فکر و نظر کے لحاظ سے مکہ کے بہت کم لوگ ان کے ہم پلہ تھے۔ عقل و خرد جہاں انسان کے قلب و نظر کو جلا بخشتی ہے وہاں بسا اوقات بے راہ روی کا موجب بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن اللہ کی طرف سے ابوبکرؓ کو قلب سلیم ودیعت ہوا تھا۔ اسی لیے وہ اپنی قوم کے اکثر گمراہ کن اعتقادات اور اسلام دونوں زمانوں میں شراب کا قطرہ تک نہ چکھا اور حالانکہ اہل مکہ شراب کے عادی ہی نہیں بلکہ عاشق تھے۔ ابن ہشام اپنی سیرت میں ان کے اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ابوبکر! اپنی قوم میں بہت ہر دل عزیز تھے علم الانساب کے بہت بڑے ماہر تھے۔ قریش مکہ کے تمام خاندان کے نسب انہیں ازبر یاد تھے اورہر قبیلے کے عیوب ونقائص اور محامد و فضائل سے بخوبی واقف تھے۔ اس وصف میں قریش کا کوئی فرد ان کا مقابلہ نہ کر سکتاتھا۔ وہ خلیق‘ ایمان دار اور ملنسار تاجر تھے۔ قوم کے تمام لوگ ان کے اعلیٰ اخلاق اور عمدہ برتاو کے معترف تھے اور انہیں فضائل کے باعث ان سے بے حد محبت کرتے تھے‘‘۔
0 تبصرے