رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور قبول اسلام :

Views

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : 



رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور قبول اسلام :

حضرت ابوبکر ؓ کاقیام مکہ کے اس محلے میں تھا جہاں حضرت خدیجہؓ بنت خویلد اور دوسرے بڑے بڑے تاجر سکونت پزیر تھے۔ اور جن کی تجارت یمن و شام تک پھیلی ہوئی تھی۔ اسی محلے میں رہنے کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا رابطہ پیدا ہو گیا اور دونوں ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب آپ حضرت خدیجہؓ سے شادی کرنے کے بعد انہیں کے گھر منتقل ہو گئے تھے۔ 

ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو سال چند ماہ چھوٹے تھے۔ گمان غالب ہے کہ یہ ہم عمری میں، پیشے میں اشتراک‘ طبیعتوں میں یک جہتی، قریش کے عقائد فاسدہ سے نفرت اور بری عادتوں سے اجتناب، ان تمام باتوں نے دونوں کی دوستی کو پروان چڑھانے میں بہت مدد دی۔ مورخین اور راویوں میں دونوں کی دوستی کے متعلق بھی اختلاف ہے۔ بعض تو یہ لکھتے ہیں کہ بعثت سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ابوبکرؓ کی گہری دوستی ہو چکی تھی اور یہی دوستی و یک جہتی ان کے سب سے پہلے اسلا م لانے کا محرک ہوئی۔ لیکن بعض مورخین کا خیال یہ کہ دونوں کے تعلقات میں استواری اسلام کے بعد ہوئی‘ اسلام سے پہلے دونوں کے تعلقات صرف ہمسائیگی اور ذہنی میلانات و رجحانات میں یکسانی تک محدود تھے۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ بعثت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عزلت اور گوشہ نشینی پسند کرتے تھے اور انہوں نے کئی سال سے لوگوں سے ملنا جلنا ترک کر رکھا تھا۔ 

جب اللہ نے آپ کو رسالت کے شرف سے مشرف کیا تو خیال آیا کہ ابوبکرؓ کو اللہ نے عقل و خرد سے حصہ وافر دے رکھا ہے اس لیے سب سے پہلے انہیں اسلام کی تبلیغ کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ ان کے پاس گئے اور انہیں اللہ کی طرف بلایا جس پر ابوبکرؓ نے کسی تردد کا اظہار نہ کیا اور ایک لمحے کے توقف کے بغیر ایمان لے آئے۔ اس وقت سے دونوں کے درمیان تعلقات کا آغاز ہوا اور ان تعلقات میں روز بروز استواری پیدا ہوتی چلی گئی۔ ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و الفت میں اپنے آپ کو سرتاپا غرق کردیا اور ایمان کا وہ نمونہ پیش کیاجس کی نظیر رہتی دنیا تک نہ پیش کی جا سکے گی۔ 


حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کودین اسلام کی محبت میں ترقی کرتے ہوئے دیکھا۔ کوئی دن ایسا نہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر صبح و شام تشریف نہ لاتے ہوں۔


آغاز اسلام سے ہی ابوبکرؓ اپنے اندردین حق کی اشاعت و ترویج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امداد و اعانت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے تھے۔ اور ہر وقت نہایت اخلاص سے اس میں مشغول رہتے تھے۔ چونکہ ابوبکرؓ عوام و خواص میں بہت ہر دل عزیز تھے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی بے حد عزت و عقیدت تھی اس لیے بہت جلد متعدد اشخاص ان کی تبلیغ سے اسلام لے آئے۔


عثمان بن عفانؓ‘ عبدالرحمن بن عوفؓ‘ طلحہؓ بن عبیداللہ‘ سعیدؓ بن ابی وقاص اور زبیرؓ بن عوام جواولین صحابہؓ میں سے ہیں، ( یہ سب کے سب بلند پایہ صحابیؓ اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ابوبکرؓ نے جن لوگوں کو مسلمان کیا وہ تمام اپنے ایمان و اخلاص میں بے نظیر ثابت ہوئے ۔)

ابوبکرؓ ہی کی کوششوں سے اسلام لائے تھے۔ بعد میں بھی ابوعبیدہ بن جراحؓ اور اکثر دوسرے لوگ ان کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہوئے۔ 


بلا تردد قبول اسلام کا سبب :

ابوبکرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ پڑھتے ہی طبعاً دل میں خیال آتاہے کہ یہ بڑی ہی حیرت انگیز بات ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کرتے وقت کسی ہچکچاہٹ اور تردد کا اظہار نہ کیا اورجونہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 

ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے فوراً بغیر پس و پیش اسے قبول کر لیا، چنانچہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :


’’میں نے جس کسی کو اسلام کی طرف بلایا اس نے کچھ نہ کچھ تردد اور ہچکچاہٹ کا اظہار کیا سوائے ابوبکرؓبن ابی قحافہ کے۔ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تامل کے فوراً میری آواز پر لبیک کہا‘‘۔


صرف یہی امر تعجب انگیز نہیں کہ ابوبکرؓ نے توحید کی دعوت سنتے ہی اس امر پر لبیک کہا بلکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غار حرا میں فرشتے کے نزول اوروحی اترنے کا واقعہ انہیں سنایا تو بھی انہوں نے خفیف ترین شک کا بھی اظہار نہ کیا اوربے پس و پیش آپ کی تمام باتوں کا یقین کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ابوبکرؓ مکہ کے ان عقل مند انسانوں میں سے تھے جو ایک طرف بتوں کی عبادت کو حماقت سے تعبیر کرتے تھے ۔ اور دوسری طرف دل و جان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت‘ امانت ‘ نیکی اور پاک بازی کے قائل تھے۔ 

جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باتیں سنیں تو کوئی شک دل میں لائے بغیر وہ فوراً آپ پر ایمان لے آئے کیونکہ انہیں نہ صرف آپ کی صداقت پر کامل یقین تھا بلکہ آپ کی پیش کردہ تمام باتیں بھی سراسر حکمت پر مبنی نظر آتی تھیں اور وہ انہیں عقل و فکر کے تقاضوں پر پورا اترتے دیکھتے تھے۔ 


جرات ایمانی :

ہمارے نزدک ان کے بلا توقف اور بلا تردد اسلام قبول کرنے سے بھی زیادہ تعجب انگیز امر ان کی وہ بے نظیر جرات ہے جو اسلام قبول کرتے ہی انہوں نے اس کی اشاعت کے سلسلے میں دکھائی۔ وہ نہ صرف دل و جان سے توحید و رسالت پر ایمان لائے بلکہ اعلانیہ ان باتوں کی تبلیغ بھی شرو ع کر دی۔ اور اس بات کا مطلق خیال نہ رہا کہ اس طرح آئندہ چل کر ان کے لیے کتنے خطرات پیدا ہوں گے۔ ان کا شمار مکہ کے معززتاجروں میں ہوتاتھا اورایک تاجر کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے گہرے دوستانہ و روادارانہ تعلقات رکھے اور ان باتوں کے اظہار سے احتراز کرے کہ جو عوام کے مروجہ عقائد واعمال کے خلاف ہوں مبادا اس کی تجارت پر برا اثر پڑے ۔ دنیامیں اس قسم کے مظاہر عام طورپر نظر آتے ہیں کہ اکثر لوگ عامتہ الناس کے عقائد و خیالات پر اعتقاد نہ رکھنے کے باوجود نہ صرف اپنے فائدے‘ مصلحت یا عافیت کی خاطر منہ میں گھگیاں ڈالے خاموش بیٹھے رہتے ہیں، بلکہ بسا اوقات اپنے ذاتی خیالات کے برعکس عوام کی انہی باتوں کی تائید کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جنہیں وہ اپنے دل میں غلط فضول اور لایعنی سمجھے ہیں۔ 

عام لوگوں ہی کا یہ حال نہیں بلکہ وہ لوگ بھی جنہیں قوم کی قیادت کا دعویٰ ہوتاہے۔ اور جو اس کے لیے راہ عمل متعین کرنے کے مدعی ہوتے ہیں بالعموم رائے عامہ کی کھلم کھلا مخالفت کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ لیکن ابوبکرؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد پہلے ہی دن سے جو عظیم الشان نمونہ دکھایا ہے وہ نظیر نہیں رکھتا اگر وہ خفیہ طورپر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق پر اکتفا کرتے اورتجارت میں نقصان کے ڈر سے اسلام کو مخفی رکھتے تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شاید کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ اور آپ ان کی طرف سے محض اسلام کے اظہار ہی کو کافی سمجھتے لیکن ابوبکر ؓ نے ایسا نہ کیا۔ وہ اعلانیہ اسلام لائے اور معاً بعد اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف کر دی ۔ 

انہوں نے نہ اپنی تجارت کا خیال کیا اورنہ کفار مکہ کی مخالفت اور ایذا رسانی کا بلکہ بڑے انہماک سے تبلیغ دین میں مشغول ہو گئے۔ ایسا جرات مندانہ اقدام صرف وہی شخص کرسکتا ہے کہ جسے دین کے راستے میں نہ جان کی پروا ہو، نہ مال کی اور جو مال و منال اور دنیوی وجاہت و عزت کو دین کی خدمت میں اس کی تبلیغ و اشاعت کے مقابلے میں بالکل ہیچ سمجھتا ہو۔

جاری ہے .... 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے