القاسمی وقار احمد خان
waqarqasmi@yahoo.com
عمرانیات میں ابن خلدون کی حیثیت:
عمرانیات کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے۔ تقریبا دو ڈھائی صدی کا عرصہ گزرا ہوگا کہ مغربی حکماء نے اس پر غور وخوض کیا اور اس کے اصول وفروع کی نشان دہی کی؛ لیکن ابن خلدون نے کافی وضاحت اور نسبتا زیادہ عمدگی سے اس کے اصول ومبادی کو پہلے ہی واشگاف کردیا تھا۔
ابن خلدون پہلا شخص ہے، جس نے اس علم کی واضح بنادیں قائم کیں، حالاں کہ اس کا اصل موضوع عمرانیات نہیں؛ بلکہ فلسفہ تاریخ ہے۔ عمرانیات کی بحثیں تو مقدمہ میں محض استطرادا آگئی ہیں؛ مستقل بالذات حیثیت سے عمرانیات کو اپنا موضو ٹھہرا کر ابن خلدون زندگی کی پیچیدگیوں کا حل نہیں کرتا۔
عمرانیات کی طرف ابن خلدون کا ذہن کیوں منتقل ہوا؟ اس سوال کے مختلف جواب ہوسکتے ہیں؛ لیکن میرا نقطہ نظر اس سلسلہ میں یہ ہے کہ اس انتقالِ ذہن کا سب سے بڑا سبب اس کی اپنی عبقریت اور نبوغ ہے؛ کیوں کہ نابغہ اور عبقری اسی کو کہتے ہیں، جس کی بصیرت اور ژرف نگاہی مستقبل کے دھندلکوں میں آئندہ کے افکار کی ایک واضح جھلک دیکھ لیتی ہے؛ لیکن اگر تنہا عبقریت سے اس کے خیالات وافکار کی توضیح نہ سمجھی جاسکے، تو: پھر ان حقائق کو بھی مدنظر رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں:
(1): اس وقت تاریخ گرچہ واقعات ہی کو بیان اور واقعات کے پیچھے جو منظم اور باقاعدی عوامل تھے، ان سے تعرض نہیں کرتی تھی؛ تاہم حکومتوں اور سلطنتوں کے عروج وزوال کی مکمل داستانیں اس میں مندرج تھیں؛ اس لیے غور وفکر کرنے والوں کو اس سے مدد ضرور مل سکتی تھی اور وہ یہ بھی معلوم کرسکتے تھے کہ عروج وزوال براہ راست کن اسباب وداعیات کا نتیجہ ہیں۔
(2): اس سے پہلے مسلمانوں میں ابوبکر طرطوشی اور ماوردی جیسے مفکر پیدا ہوچکے تھے، جنہوں نے کسی حد تک سیاسی نظام کے بارے میں بحثیں کی ہیں اور معاشرے کا اسلامی طریقہ سے جائزہ لیا ہے، تاکہ اس کی سیاسی ودینی بنیادیں واضح ہوسکیں۔ ان کے افکار سے ابن خلدون نے کس حد تک استفادہ کیا ہے؟ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ یہ ان میں سے بعض کا ذکر خاص اہمیت کے ساتھ کرتا ہے۔
(3): ابن خلدون جس دور میں پیدا ہوا، تاریخ اسلامی میں یہ خود رستاخیز کا زمانہ تھا؛ لہذا اس نے بچشم خود اپنے گرد وپیش میں دیکھا کہ کتنی چھوٹی چھوٹی حکموتیں بنی اور بگڑی ہیں، کتنے ہی بادشاہوں اور والیوں نے تاج وتخت کو زینت بخشی ہے اور اسے چھوڑا ہے، بالخصوص افریقہ کے انقلابات نے تو اس واقعات کی رفتار اور مزاج کے سمجھنے میں کافی مدد کی ہے۔
(4): ابن خلدون میں ایک خصوصیت اس کی ہمہ گیری اور موسوعیت بھی ہے، جس سے اس کو عمرانی کلیات قائم کرنے کا موقع ملا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس خصوص میں نوری اور العمری کے مرتب کردہ موسوعوں سے بھی اس نے فائدہ اٹھایا ہے۔
جاری ۔۔۔۔
اشارہ: اگلی قسط سے ابن خلدون کے افکار پر نظر ڈالی جائے گی ان شاء اللہ۔
0 تبصرے