خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

Views

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ :

خلافت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : 

----------------------------------------



عالم اسلام کی تاریخ کا آغاز حقیقتاً اس وقت سے ہوتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل وطن کے مسلسل مظالم سے نہایت درجہ پریشان ہو کر مکہ کی سرزمین سے ہجرت کر نے اور مدینہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ اس عظیم الشان واقعے کو اسلامی تاریخ کا مبداء اس لیے قرار دیا جاتا ہے کہ ترقی اسلام کی بنیاد اسی وقت سے پڑی‘ اللہ کی تائید و نصر ت نہایت شاندار طور پر ظاہر ہوئی اور کفار مکہ کو جو مسلسل تیرہ سال تک اسلام کی سخت مخالفت کرنے اور اپنے مقصد میں ناکام رہنے کے بعد بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل پر متفق ہو چکے تھے۔ ایک بار پھر زبردست ناکامی کامنہ دیکھنا پڑا۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ واحد شخص تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کاشرف حاصل ہوا۔ اس واقعے کے دس برس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے اور نماز پڑھانے کے لیے مسجد میں تشریف نہ لا سکے توآپ نے اپنی جگہ جس شخص کو امامت کے لیے منتخب کیا وہ حضرت ابوبکرؓہی تھے ۔ یہ عظیم الشان شرف ایساتھا جو حضرت عمرؓ بن خطاب جیسے جلیل القدر صحابی کو بھی نہ حاصل ہو سکا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت جیسے نازک موقع پر حضرت ابوبکر ؓ کو اپنا ساتھی کیوں چنا اور مرض الموت میں اپنی جگہ نماز پڑھانے کا حکم کیوں دیا؟ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ ہی سب سے پہلے آپ کی رسالت پر ایمان لائے تھے اور دین حق کی خاطر جان‘ مال اور عزت کی قربانی دینے میں بھی ان کا قدم دوسرے تمام مسلمانوں سے آگے رہا۔ وہ قبول اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات تک کے طویل عرصے میں برابر آپ کی اعانت‘ دین اسلام کی اشاعت اور کفار کے مظالم سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے میں ہمہ تن مشغول رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کوانہوں نے اپنے ہر کام پر مقدم رکھا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے اپنی جان تک کی مطلق پرواہ نہ کی تھی اور ہر جنگ میں آپ کے دو ش بدوش کفار سے مقابلہ و مقاتلہ کیا تھا۔ نہایت پختہ ایمان کے علاوہ ان کے اخلاق حسنہ بھی کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔۔ اسی حسن خلق کی بدولت وہ بے حد ہر دل عزیز تھے اور ہر مسلمان ان سے محبت کرتا تھا۔ 

حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ کے دینی مرتبے اور ان سے لوگوں کی حد درجہ عقیدت ہی کا نتیجہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد جب آپ کی جانشینی کا سوال مسلمانوں کے سامنے آیا تو ان کی نظر انتخاب انہی پر پڑی اور سب نے ان کو بالاتفاق پہلا خلیفہ تسلیم کر لیا۔ اپنے مختصر عہد خلافت میں اسلام کی سربلندی کے لیے انہوں نے جو الوالعزمانہ کوششیں کیں ان کی نظیر عالم اسلام کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضرت ابوبکرؓ ہی کے مبارک زمانے میں اسلامی سلطنت کا آغاز ہوا جس نے پھیلتے پھیلتے دنیا کے کثیر حصے کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ اس عظیم الشان مملکت کے کنارے ایشیا میں ہندوستان اور چین تک، افریقہ میں مصر اور تونس و مراکش تک اور یورپ میں اندلس و فرانس تک پھیل گئے تھے۔ یہ سلطنت تھی کہ جس نے انسانی تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے کے لیے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جن کا اثر رہتی دنیا تک رواں دوا ں رہے گا۔ 

ایک طرف یہ مرد حق غریبوں اور مسکینوں کی مدد کے لیے ہر لحظہ بے چین نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس جیسا درد مند انسان دنیا کے پردے پرکوئی نہ ہو گا۔ دوسری طرف اعلائےکلمۃ الحق اور اسلام کی سربلندی کی خاطر وہ بڑے سے بڑا خطرہ قبول کر لینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی اسے اس کے عزم و ارادہ سے باز نہیں رکھ سکتیں۔ عزم و استقلال کا یہ عظیم پیکر تردد اور ہچکچاہٹ کے نام سے بھی نا آشنا تھا۔ ا س عظیم الشان انسان کولوگوں کی مخفی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اجاگر کرنے اور ان سے ان کی استعداد کے مطابق کا م لینے کا بہترین ملکہ حاصل تھا۔ 

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں حضرت ابوبکرؓ نے ایک عاشق صادق کی طرح زندگی بسر کی ۔ جب قریشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاوں اور مظالم کا نشانہ بناتے تھے تو کفار کے مقابلے میں حضرت ابوبکرؓ ہی سینہ سپر ہوتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر جس شخص نے سب سے پہلے لبیک کہا وہ ابوبکرؓ ہی تھے ۔ ابوبکرؓ ہی نے ہجرت کے نازک ترین موقع پر غار ثور سے یثرب تک پوری جاں نثاری سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی۔ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہود کی مکاریوں اور منافقین کی ریشہ دوانیوں سے واسطہ پڑا اور قریش مکہ اوریہود مدینہ کی پے در پے کوششوں کے نتیجے میں سارا عرب آپ کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہوا تو ابوبکرؓ ہی نےآپ کے خاص الخاص مشیر کار کے فرائض انجا م دیے۔ 

اسلام کی سربلندی کے لیے جو موقف حضرت ابوبکرؓ نے اختیار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کے ذیل میں جو بلند پایہ خدمات انہوں نے انجام دیں وہ نہ صرف مجموعی طور پر آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک ابوبکرؓ کے نام کا ابد الاباد تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ابوبکرؓ کی رفعت شان کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن ہی نہیں کیونکہ اعلاء کلمۃ الحق کی خاطر جو قربانیاں انہوں نے پیش کیں ان کا تعلق اصل میں دل سے ہے اوریہ علم خدا ہی کو ہو سکتا ہے کہ ابوبکرؓ کے دل میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے جو جذبات موجزن تھے وہ ظاہر کے مقابلے میں کتنے شدید تھے اور ان کا اندرونی اخلاص ظاہری اخلاص سے کتنا زیادہ تھا۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جو واقعات پیش آئے ان سے ان کا حسن بصیرت اور دور رسی مزید آشکار ہو گئی ۔ مرتدین عرب سے فراغت پانے کے بعد جب آپ نے ایران و روم پر توجہ مبذول کی تو سب سے بڑا ہتھیار جو انہوں نے ان دونوں سلطنتوں کے خلاف استعمال کیا وہ عدل کا تھا جسے اسلام نے اصل الاصول کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اس ہتھیار کا سامنا ایرانی سلطنت کر سکتی تھی نہ رومی مملکت ۔ ایران اور روم کے باشندے شخصی اقتدار کی چکی میں پس رہے تھے۔ رعایا کے درمیان مختلف طبقات قائم تھے، نسلی امتیاز کی لعنت بری طرح مسلط تھی، حکمرا ن طبقہ ملک میں بسنے والے دوسرے طبقوں کو اپنے سے کم تر بلکہ اچھوت سمجھتا تھا‘ اور انہیں ہر لحاظ سے دبانا فرض خیال کرتا تھا۔ عین اس وقت اسلام نے عدل و انصاف اور مساوات کا علم بلند کیا۔ 

حضرت ابوبکرؓ نے ایران جانے اور روم جانے والی افواج کے سپہ سالاروں کو خاص طور پر ہدایات فرمائیں کہ وہ عدل و انصاف کادامن کسی طرح ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور مفتوحہ علاقوں کے تمام لوگوں سے بلا امتیاز مذہب و ملت مساوی سلوک کریں۔ اس طرح جو لوگ ایک عرصے سے ظلم و ستم اور عدم مساوات کا شکار چلے آ رہے تھے وہ اسلام کے منصفانہ اصولوں کی جھلکیاں دیکھ کر اس کے گرویدہ ہو گئے اور ان سلطنتوں کو اپنی زبردست عسکری قوت اور عظیم الشان مسلح افواج کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں ہزیمت اٹھانا پڑی ۔ ظاہر ہے کہ ظلم و تشدد اور نسلی امتیاز روا رکھنے والی سلطنت خواہ اس کی ظاہری طاقت کتنی ہی ٹھوس اور اس کی فوج کتنی ہی منظم ہو ایسی قوم کے مقابلے میں کبھی نہیں ٹھہر سکتی جو عدل و انصاف اور مساوات کی نہ صرف علم بردار ہو بلکہ جس کی زندگی انہیں سانچوں میں ڈھلی ہو۔ یہ طرز زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدکامل طورپر حضرت ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے