خداکاتصور عام ذہن میں

Views

خداکاتصور عام ذہن میں

تحریر منجانب جابر بن حيان ایڈمن ردالحادگروپ



    خدا کو پانے کی چاہت میں انسان لاکھوں سالوں سے خدا کو پتھروں کے بتوں میں سورج چاند ستاروں میں ڈھونڈ رہا ہے وہ خدا ہی کیا جو ہمارے سامنے آ جائے اس دنیا میں اگر بالفرض خدا ہمارے سامنے آ بھی جائے تو ملحدین تب بھی انکار کر دیں گے یہ خدا نہیں ہو سکتا ہے

ایک عام انسان کی نظر میں خدا کی کیا اہمیت ہے اگر میں اپنی بات کروں تو مجھے یہ نہیں لگتا کہ خدا نہیں ہے بلکہ میں اس چیز کو مانتا ہوں کہ واقعی کوئی خدا موجود ہے زیادہ تر ملحدین یہ سمجھتے ہیں کہ خدا موجود نہیں ہے

ایک عام انسان دو دنیاؤں میں رہتا ہے ایک دنیا باہر کی اور ایک دنیا اندر کی باہر والی دنیا میں جتنا مرضی جھوٹ بول لے لیکن اندر والی دنیا انسان کو جھوٹ بولنے کی بجائے سچ بولنے پر مجبور کرتی ہے میں اپنی بات کروں تو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا کہاں ہے سب سے پہلے مجھے اپنا پتہ لگانا ہے کہ میں کون ہوں انسان کا جسم بہت زیادہ پچیدہ ہے اور اس پچیدہ جسم میں نظام بھی بہت زیادہ پچیدہ ہے ایک گوشت کے لوتھڑے میں کس طرح حرکت ہوتی ہے یا پھر کس طرح اس لوتھڑے میں جان یا روح پھونکی جاتی ہے اور اگر گوشت کے لوٹھرے سے روح کو نکال دیا جائے تو بھلا کون ہے جو اس گوشت کے لوٹھرے کو حرکت دے گا بغیر کسی عمل دخل کے ذریعے سے یہ سمجھنا میرے لیے ناممکن ہے میں یہ تحریر ایک عام انسان کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں انسان کا دل بہت چھوٹا سا گوشت کا ٹکڑا ہے اسی طرح مرغیوں کا چوپائیوں کے دل تو ہم نے دیکھے ہو نگے جدید دور میں لیکن اس چھوٹے سے دل سے اتنا بڑا انسان یا جاندار کیسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے میں اس چیز کو سمجھنے سے قاصر ہوں اگر ہم کائنات میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں تو ہمیں بہت سی ایسی نشانیاں ملتی ہیں کہ ان سب چیزوں کو بنانے والا ضرور خالق موجود ہے دن اور رات کا آنا جانا اور بادلوں کا چھانا بارشیں ہونا طوفان آنا کیا یہ خود بخود ہے ان سب کا خود بخود ہونا ممکن ہی نہیں ہے اگر یہ سب چیزیں خدا نہیں کر رہا تو پھر کون کر رہا ہے اگر یہ نظریہ بھی مان لیا جائے کہ یہ سب چیزیں خود بخود ہو رہی ہیں تو پھر یہاں سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیوں ہو رہی ہیں کیا وجہ ہے سمندری طوفان آنا سیلاب آنا تیز ہوائیں چلنا بارشیں چلنا اگر یہ سب خود بخود ہو رہا ہے تو پھر اب تک تو دنیا ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کچھ عرصے کے لیے طوفان آتا ہے سمندری ہوائیں چلتی ہیں تیز بارشیں چلتی ہیں سمندری طوفان آتے ہیں کچھ وقت کے لیے ہی ہوتا ہے یہ مستقل طور پر کیوں نہیں ہو رہا ہے آتے ہیں چلے جاتے ہیں کیا وجہ ہے کہ یہ واپس کیوں جاتے ہیں کیا انہیں کوئی روکتا ہے میری عقل یہی کہتی ہے کہ ظاہر ہے جب خدا نے اس دنیا کو بنایا ہے وہ جانتا ہے کہ کتنی بارش انسانوں کے لیے مفید ہے اور کتنی ہوائیں یا پھر کتنا سمندری طوفان کس حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں اور انسانی بقا کی خاطر خدا ان سب چیزوں کو واپس موڑ لیتا ہے اگر یہ سلسلہ خود بخود چلتا تو اب تک تو نہ تو ہوائیں رکنی تھی نہ بارشیں نہ ہی سمندری طوفان سیلاب وغیرہ ذرا سا سیلاب آئے تو شہروں کے شہر تباہ ہو جاتے ہیں لوگ مر رہے ہوتے ہیں صرف ذرا سے سیلاب کی وجہ سے اگر یہ خود بخود ہو رہا ہوتا اور ان کو روکنے والا کوئی نہ ہوتا تو اب تک ان سے نسل انسانی ختم ہو چکی ہوتی سورج ہم تک اتنی ہی گرمی پہنچاتا ہے جتنی گرمی انسان کی برداشت کے قابل ہے اس دنیا میں انسان نے بہت زیادہ ترقی کر لی ہے لیکن آج تک انسان موت کو شکست نہیں دے پایا اب یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر مرنا اور پیدا ہونا بھی خود بخود ہے تو پھر انسان جو ہیں وہ مر کیوں رہے ہیں خود بخود کیا وجہ ہے ان کی خود بخود مرنے کی اور پیدا ہونے کی چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں کہ مرد اور عورت کے جنسی ملاپ کی وجہ سے انسان پیدا ہوتا ہے لیکن انسان خود بخود مر کیوں رہے ہیں کیا وجہ ہے کیا یہ بھی کوئی خود بخود والا ہی عمل ہے انسان تو اپنی افزائش نسل کے لیے جنسی ملاپ کے ذریعے بچے پیدا کرتا ہے لیکن جانور اپنی افزائش نسل کے لیے جنسی ملاپ کیوں کرتے ہیں یا پھر اپنی نسل بڑھا رہے ہیں حتی کہ ملحدین کے اباؤ اجداد بندر بھی اپنی نسل بڑھا رہے ہیں کیا وجہ ہے کہ جانور بھی مر رہے ہیں پیدا ہو رہے ہیں اور اپنی زندگی جیتے ہیں اپنے حصے کی خوراک کھاتے ہیں اور یہ سب چیزیں جو ہیں میری عقل کے مطابق خود بخود نہیں ہو سکتی ہیں کیا کبھی کسی نے یہ غور کیا ہے کہ جب انسان کا کوئی کام ہوتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے جب انسان کا کوئی کام بگڑتا ہے تو وہ غمگین ہوتا ہے یا پھر اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے یا اس کا کوئی عزیز مر جاتا ہے تو وہ غمگین ہوتا ہے لیکن جیسے ہی انسان کا اس کی عقل اور فہم و فراست کے مطابق کوئی کام ہوتا ہے تو انسان بہت زیادہ خوش ہوتا ہے یہ احساسات کہاں سے آتے ہیں جیسے کہ انسان کو جب تکلیف ہوتی ہے یعنی انسان کو چوٹ لگے تو انسان کو درد محسوس ہوتی ہے حتی کہ ہڈی تک ٹوٹ جاتی ہے تو درد محسوس ہوتی ہے کٹ لگنے سے خون بہنے سے درد محسوس ہوتا ہے گولی لگنے سے درد محسوس ہوتا ہے یہ احساسات جو ہیں یہ کیوں محسوس ہوتے ہیں کیا یہ احساسات بھی خود بخود ہی محسوس ہوتے ہیں زمین ہمارے لیے اناج کیوں اگاتی ہے کیا وجہ ہے طرح طرح کے پھل سبزیاں فصلیں اور حتی کہ جانوروں کے لیے چارہ تک اگاتی ہے تاکہ جتنے بھی زمین پر جاندار رہتے ہیں وہ بھوک سے نہ مر جائیں کیا وجہ ہے کہ زمین ہمارے لیے بلا وجہ اناج کیوں اگا رہی ہے کیا زمین ہمارے لیے خود بخود اناج اگا رہی ہے کیا زمین کو پتہ ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو بھی بھوک لگتی ہے کیا زمین ہمارے احساسات کوسمجھ سکتی ہے یا ہمارے دماغ کو پڑھ سکتی ہےممکن ہی نہیں ہے تمام پرندے چرندے درندے جوڑوں میں موجود ہیں تمام جاندار اپنی اپنی بقا کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں حتی کہ چڑیا چوٹیاں حشرات وغیرہ کون ہے وہ تمام جانداروں کو عقل بخشنے والا شعور بخشنے والا اور اصولوں کے تحت چلانے والا، ایک عام انسان کی عقل کے مطابق کوئی تو ہے، خدا نے انسان کو عقل جیسی نعمت دی ہے اور اس عقل سے انسان نے ایسی ایسی ایجادات کی ہیں حتی کہ انسان بھی ان ایجادات کو کر کے حیران ہیں لیکن یہی عقل خدا کے وجود پر سوال اٹھاتی ہے کہ آیا خدا موجود ہے یا نہیں ہے بڑے بڑے کہکشائی پیمانے ہمارا شمسی نظام ہمارا ڈی این اے ایٹم سے بھی چھوٹے چھوٹے ذرات کے حصے ہر ایک چیز یہ تاثر دیتی ہے کہ اُسے بڑے ہی بامقصد طور پر تخلیق کیا گیا ہے کائنات کی یہ خاصیت اِس قدر طاقتور ہے کہ بڑے سے بڑے ملحدین بھی کائنات کے اندر پائے جانے والے نمونے یعنی ڈیزائن پر بات کرنے یا اُسکی وضاحت کرنے سے کتراتے ہیں ایٹم سے بھی چھوٹے ذرات یا قوتوں میں کچھ بھی یہ اشارہ نہیں کرتا کہ اُنہیں اِسی طرح ہی ہونا چاہیے تھا لیکن اگر وہ بالکل اِسی طرح نہ ہوتے جیسے وہ ہیں تو پیچیدہ اشیاء اور زندگی کا وجود نا ممکن ہو جاتا زندگی کو حقیقی ہونے سے پہلے ممکن ہونے کی ضرورت ہے اوراِس کے لیے ایسے اجسام یا ذرات کی کئی درجنوں کائناتوں کا باہمی طور پر ملکر اِس انداز سے کام کرنا کہ جسے ہمارا ذہن سمجھ ہی نہیں سکتا زندگی کے وجود کو ممکن بناتا ہے سائنس نے نہ تو کبھی بے حیاتی میں سے حیات کے پیدا ہونے کا تجزیہ کیا ہے اور نہ ہی اِس کی کوئی تفصیل بیان کی ہے اور پھر یہ زندگی ایک دم عضویات کا انتہائی پیچیدہ نظام بھی ظاہر کرتی ہے وہ تمام ماہرینِ آثارِ قدیمہ جو کسی غار کی دیوار پر یہ لکھا ہو دیکھیں مَیں یہاں ہوں وہ عالمگیر سطح پر اِس بات کو فرض کر لیں گے کہ یہ تحریر کسی انسان کے پُر حکمت عمل کا نتیجہ ہے اِس کے ساتھ ہی اگر ہم دیکھیں تو انسانی ڈی این اے میں اِس قسم کی کوڈنگ ہوئی ہے جو دُنیا کا کوئی بہترین انجینئر کبھی کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا ثبوتوں کا وزن منطقی لحاظ سے اِس سب کو بیان کرنے کے لیے ایک بہت پُر حکمت نمونہ ساز یعنی خُداکے وجود کی حمایت کرتا ہے اگر ہم سائنس دانوں کی بات کو مان لیں کے بگ بینگ ہوا ہے تو پھر بگ بینگ کرنے والا کون ہے کیا بگ بینک کا دھماکہ خود بخود ہوا تھا ہر نقطے کا کوئی نہ کوئی آغاز ہوتا ہے تو پھر بگ بینگ کا آغاز کیا تھا کیا بگ بینگ خود اپنی مرضی سے ہوا تھا یا پھر بگ بینگ کو کرنے کے لیے کسی فورس یا طاقت کی ضرورت پڑی تھی بگ بینگ کا دھماکہ کرنے والی کوئی ایسی ذات موجود تھی جس کے پاس یہ طاقت تھی کہ بگ بینگ ہو سکے کائنات کے ڈیزائن پر بات کرنے سے پہلے ہمیں انسانی جسم کی پیچیدگیوں کو سمجھنا چاہیے لیکن ملحدین انسانی جسم کو ایک مشین کی طرح دیکھتے ہیں بڑے بڑے ملحدین کائنات کے ڈیزائن پر گفتگو کرنے سے کتراتے ہے اور بہانہ ڈھونڈتے ہیں کائنات کے موضوع سے بھاگنے کا، اس کائنات کی علت موجود ہے اور اس کائنات کی علت اولی خدا ہے  اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر خدا کے علت موجود نہیں ہے تو خدا کے وجود کا سرے سے ہی انکار کر دیا جائے ہرچیز کی علت ہونا ضروری نہیں ہے خدا نے خود ثابت کیا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ہی موجود ہے لیکن ہم انسان جو ہیں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خدا ہمیشہ سے کیسے موجود ہے اور کیسے موجود رہا ہے اور کیسے موجود رہے گا انسانوں کی سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ وہ خدا کو اپنی طرح سمجھتے ہیں حالانکہ خدا انسانوں سے اعلی و برتر ہے خدا کے اعلی و برتر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خدا موجود ہے لیکن انسانوں کو اس نے اپنا پیغام پہنچایا اپنے انبیاء کرام کے ذریعے سے خدا کا انکار کرنا کوئی عقلمندی نہیں ہے بلکہ خدا کے وجود کا اقرار کرنا اور خدا کی وحدانیت پر یقین لانا ہی عقلمندی ہے ابھی تک انسان نے اتنی ترقی نہیں کی کہ وہ خدا کے وجود کا سرے سے ہی انکار کر دے کیونکہ خدا نے انسان کی فطرت میں اپنی گواہی رکھی ہوئی ہے بالفرض اگر ایک انسان کو چوٹ لگتی ہے تو وہ خدا کو پکار اٹھتا ہے حالانکہ ملحد بھی ایسے ہیں کہ بعض دفعہ جب انہیں چوٹ لگتی ہیں یا کوئی ان کا نقصان ہوتا ہے تو وہ خدا کو ہی پکارتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ آ سائنس مجھے بچا یا پھر آ سائنس مجھے بچا لے میں مر رہا ہوں بلکہ خدا کو پکارتے ہیں قرآن مجید میں ایک آیت موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نفسوں کو خدا بنا لیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر ملحد اپنے اپنے نفس کو خدا سمجھتا ہے اور اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے  قرآن مجید کی اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملحدین اپنے نفسوں کو خدا مانتے ہیں اور نفس کی پیروی کرتے ہیں اور نفس کے پیچھے چل کر  خدا کا انکار کرتے ہیں یہی چیز فری ول ہے جو انسانوں کو دی گئی ہے لیکن پھر بھی ملحدین فری ول کا بھی انکار کرتے ہیں اور طرح طرح کے اعتراضات اٹھاتے ہیں فری ول پر بھی میرا تمام ملحدین سے یہ سوال ہے کہ کائنات کا نظام خود بخود کیسے چل سکتا ہے کیوں چل رہا ہے اگر کائنات کا نظام خود بخود چل رہا ہے تو اس میں انسانوں کا کیا فائدہ ہے یا پھر اس نظام کا کیا فائدہ ہے اس دنیا میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے چاہے وہ جاندار ہیں بے جان ہیں تمام چیزیں ایک مقصد کے ساتھ اس دنیا میں موجود ہیں کوئی بھی چیز بغیر مقصد کے اس دنیا میں موجود نہیں ہے تو انسانوں کا اس زمین پر آنے کا مقصد کیا ہے  انسانوں کے خود بخود وجود میں آنے کی کیا وجہ تھی کیا انسان مجبور تھے انسانی وجود کو حاصل کرنے کے لیے کیا خود بخود والا عمل بھی خود بخود ہی چل رہا ہے یا کسی طاقت نے اسے چلایا ہوا ہے ملحدین سے میرا سوال ہے کیا خود بخود والا عمل عقلمندی کہلاتا ہے میری عقل میرا شعور مجھے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بات کو مانوں کہ کائنات کا نظام خود بخود چل رہا ہے ہم کسی بھی بے جان چیز کو بغیر عمل دخل کے حرکت نہیں دے سکتے ہیں بلکہ میرا عقل اور شعور اس چیز کو مانتا ہے کہ یہ کائنات کا نظام چلانے والی کوئی ہستی موجود ہے جسے ہم خدا کے نام سے جانتے ہیں یا اللہ کے نام سے جانتے ہیں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ یہ عمل جو ہے خود بخود ہو رہا ہو بلکہ کسی ایسی ذات کی طاقت سے یہ عمل جو ہے رواں دواں ہے  اس کائنات میں کوئی ایسی ذات موجود ہے جو انسانوں سے زیادہ علم رکھنے والی ہے اور انسانوں سے اعلی و برتر ہے اور انسان جو ہیں اس کے سامنے ایک ادنی سی مخلوق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے لیکن وہ ذات ایسی ہے کہ جو انسانوں پر بھی رحم کرتی ہے اور انسانوں کو علم عطا کیا عقل و شعور عطا کیا تاکہ انسان جو ہیں اپنے خدا کو پہچان سکیں لیکن انسانوں نے خدا کو پہچاننے کی بجائے خدا کے وجود کا ہی انکار کرنا شروع کر دیا ہے کیا یہ عقلمندی ہے کہ جو ذات ہمیں عقل و شعور دیتی ہے ہم اسی عقل و شعور کے ذریعے اسی ذات پر اعتراض اٹھانا شروع کر دیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بار بار انسان کے لیے بے صبرا جلد باز ناشکرہ کے القابات جو ہیں وہ استعمال کیے ہیں انسان کی فطرت میں یہ سب چیزیں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں  میں اپنی بات کروں تو میں خدا کو مانتا ہوں کیونکہ میرا عقل و شعور جو ہے وہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ خدا کے وجود کا انکار کر دیا جائے بلکہ میرا عقل و شعور اس کائنات کی باریکیوں کو جیسے جیسے سمجھ رہا ہے ویسے ویسے خدا کی واحدانیت پر خدا کے وجود پر  اور زیادہ یقین پختہ ہوتا جاتا ہے۔

 آپ کی دعاؤں کا طالب ہوں

 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے