خود کشی کی وجوہات، چند حقائق اور آئینہ

Views

 

خود کشی کی وجوہات، چند حقائق اور آئینہ۔

 


آج کی تاریخ میں خود کشی، برطانیہ اور امریکہ میں اموات کی سب سے بڑھتی ہوئی وجہ ہے۔ ان دو ممالک میں ہر سو میں سے دو مرنے والے خود کشی کرنے والے ہوتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اپنی جان لینے والی اموات کی شرح مادے کے کینسر، جگر کے سائروسس، آنت کے کینسر، سینے کے کینسر، اور الزائیمر سے بھی زیادہ ہے۔

ان تمام خود کشیوں میں سب سے اہم وجہ ڈپریشن ہے جس کا شمار مغربی دنیا کی خطرناک ترین بیماریوں میں ہوتا ہے۔

صرف ڈپریشن کی وجہ سے خود کو مارنے والوں کی: وائلینس، جنگ، دہشت گردی، ڈومیسٹک ابیوز، اسالٹ اور گن کرائم سے ہونے والی تمام اموات کو جمع کر دینے کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔

اسے ایسی بیماری کہا جانے لگا ہے جس کی بدولت لوگ خود کو مارنے میں تمام دوسری بیماریوں سے آگے ہیں۔ پھر بھی کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ڈپریشن بس کوئی عام سی اسٹریس کا نام ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اکثریت اسے مزید سنجیدگی سے لیتی۔

ڈپریشن لاشعور اور تحت الشعور کی کوانٹم فزکس کی طرح ہے، ان خفیہ جذبات اور خیالات کو شعور میں لے آتی ہے جن کا عموماً شعور سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔

حیران کن طور پر مردوں میں خود کشی کی عمر زیادہ تر پینتیس سال کے اندر اندر ہوتی ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ممکن ہے کہ آپ دنیا کے کس حصے اور کن حالات میں رہ رہے ہیں، مثلاً اگر آپ گرین لینڈ میں رہ رہے ہیں تو آپ کا اپنی جان لینے کا رسک گریس میں رہنے والوں سے ستائیس گنا زیادہ ہے۔

ہر سال دنیا میں تقریباً دس لاکھ لوگ خود کشی کے ذریعے مرتے جب کہ ایک سے دو کروڑ کے درمیان لوگ اپنی جان لینے کی کوشش کرتے مگر ناکام ہوتے ہیں۔

عالمی سطح پر ایک عورت کے مقابلے میں چار مرد خودکشی کرتے ہیں۔ ہر پانچ میں سے ایک فرد ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے جب کہ دیگر نفسیاتی مسائل کے شکار کی تعداد اس سے بھی کئی گنا بڑھ کر ہے۔

لوگ کہتے ہیں عورت کمزور ہے جب کہ اس معاملے میں دیکھا جائے تو مردوں کے مقابلے دو گنا عورتیں سیریس ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں لیکن اسے برداشت کرنے، ریکور ہونے اور اپنا علاج کروا کر ذہنی طور پر صحت یاب ہونے میں عورت مردوں سے بہت آگے ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ڈپریشن مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے؟ اس کا سیدھا جواب ہے کہ نفسیاتی بیماری کو مرد کمزوری کی علامت سمجھتے ہیں اور اسے قبول کر کے علاج کروانے سے احتیاط برتتے ہیں، اسی وجہ سے زیادہ مرتے ہیں۔

ڈپریشن کا رسک چالیس فیصد زیادہ ہوتا ہے اگر ماں یا باپ بھی عمر کے کسی حصے میں اس مرض میں مبتلا رہے ہوں۔

ڈپریشن کی وجہ سے مردوں کی عورتوں سے زیادہ خود کشیاں کرنے کی شرح صرف برطانیہ میں دیکھا جائے تو ریشو 3:1 ہے، گریس میں 6:1 اور امریکہ میں 4:1۔

دنیا کے طاقت ور ترین دماغ اس بیماری کا شکار ہوئے کچھ مر گئے کچھ بچ گئے مگر مدعا یہ ہے کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہوئے۔ مثلاً: نامور سیاست دان، ایسٹراناٹس، شعرا، پینٹرز، فلسفی، سائنس دان، ریاضی دان، گلوکار، اداکار، باکسرز، ریسٹلرز، فوجی، سپہ سالار اور سیکریٹ ایجنٹس سمیت کروڑوں ایسے افراد آج بھی اپنے اندر یہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔

اس ایک حقیقت کو قبول کر لینے سے آپ کی مردانگی کم یا زیادہ نہیں ہو جاتی ! بالکل ویسے ہی جیسے کینسر یا دل کی بیماری یا ایکسیڈنٹ ہوجانے سے مردانگی کم نہیں ہوتی۔

یہ مرد یا عورت کا مسئلہ نہیں ہے، انسان کا مسئلہ ہے۔ اس کا سدِ باب کیسے کرنا ہے ؟ یہ سوال تو تب پیدا ہو نہ جب اس کے وجود کی حقیقت کو قبول کیا جائے اور سنجیدہ لیا جائے۔ ایک مسئلہ درپیش ہے تو اسے قبول کرنے میں شرم یا جھجھک کیسی ؟

اگر اگر کوئی یہ کہے کہ وہ کہہ سکتا ہے کہ ہر انسان کا دماغ کیسے کام کرتا ہے تو وہ یا تو جھوٹا ہے یا پھر احمق!

آج بھی ماہرین کی ایک بڑی تعداد اس بے وقوفی میں مبتلا ہے کہ ڈپریشن دماغ کے کیمیکل امبیلنس کی وجہ سے ہوتی ہے۔

حوالاجات: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، گارڈئین، ماینڈ، بلیک ڈاگ انسٹیٹیوٹ، فیکٹس آف سیوسائڈ۔

ڈپریشن سب سے خطرناک اس شخص کے لیے ہے جسے نہ تو ماضی میں اس کا کوئی تجربہ ہے نہ ہی اس بابت کوئی علم۔ ہماری اکثریت 'ڈپریشن' کو محض غم ، سوگ، اداسی، مایوسی، افسردگی، تھکاوٹ، بوریت، گبھراہٹ، خالی پن، تنہائ، اسٹریس، اینزائٹی، ٹراما، پینک یا فکر و پریشانی وغیرہ سمجھتی ہے جب کہ ان سب کا مجموعہ بھی ایک عام بگڑی ہوئی ڈپریشن کا کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ عموماً اکیلی حملہ آور بھی نہیں ہوتی، اپنے ساتھ اور کئی ایسی بیماریاں لاتی ہے جن کا ذکر ہم پچھلی تحاریر میں کر چکے ہیں۔

سوچیں جب کوئی اور انسان آپ کی برین واشنگ کرتا ہے تو کیسے آپ اس کے نظریے کے حامل بن جاتے ہیں اور حقیقت سامنے ہوتے ہوئے بھی قبول نہیں کر پاتے، اب سوچیں جب آپ کا اپنا دماغ یہ کام آپ کے ساتھ کرنے لگ جائے، برین واشنگ تو چھوڑیں پوری پروگرامنگ ہی بدل کر رکھ دے، کچھ کرنے سمجھنے جوگا نہ چھوڑے تو کیسے آپ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں؟خود کو مارنے سے نہیں، بلکہ کسی طرح دماغ کو دوبارہ tame کرکے قابو کرنا ہوگا جو بہرحال ایک کٹھن مرحلہ ضرور ہے مگر نا ممکن  نہیں۔

 

ڈپریشن کیا ہے؟

ایک اندرونی جنگ، ایک بلیک ہول، ان دیکھی آگ، پریشر کُکّر، چھپا ہوا شیطان، با مشقت قید خانہ، کربناک آوازیں، اذیت ناک ادھورا پن، ایک پیرالل یونیورس، ایک طویل لڑائی، زندگی کا تاوان، جاگتی آنکھوں سے دیکھا جانے والا بھیانک خواب، پھانسی کا پھندا، خدشات کا سمندر، اندھیرا جنگل، نا امیدی کا ریگستان، غار کی تنہائی، وجہ ہی نا سمجھ آنے والا ان چاہا بھنور، ایک پرانے دماغ اور نئے دور کی ٹکر اور وہ درد جس کی نہ دوا ملے نہ تشخیص ہو اور نہ ہی کوئی یقین کرے۔

مرنے کی وجہ کیا ہے؟

معاشی فکر؟ مصائب کا گھیراؤ؟ غموں کے پہاڑ؟ بچھڑنے کا کرب؟ تکلیف دہ خیالات؟ آخر کون سی ایسی بات ہے جس پر رب قادر نہیں؟ کیا دعا منسوخ کر دی گئی ہے؟ یا کیا خبر یہی امتحان ہو؟ ایمان تو رکھیں کہ کسی نفس پر اس کے برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا، پھر کہیں یہ شیطان تو نہیں جو اکساتا ہے کہ برداشت ختم کو گئی ہے؟

کیا تب بھی عارضی و فانی تکلیف کا سودا آخرت برباد کرنے سے کرلینا چاہیے ؟ اگر دنیاوی اذیت جسے اکثریت ماننے کو ہی تیار نہیں اتنی خطرناک ہے تو آخرت کی کیفیت کیا ہوگی ؟ جس کی ہولناکی کی گواہی اللہ خود دیتا ہے۔ وہاں تو خود کو مار کر بھی جان نہیں چھوٹے گی۔

کیا تمام زندہ لوگوں میں آپ کی تکلیف باقی تمام خلقت سے بڑھ کر ہے جو وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیں اور آپ مرنے چلے؟ یا واقع دنیا ٹھیک کہتی ہے؟ آپ سچ میں کمزور ہیں جو موت کو ہی راہِ فرار محسوس کرتے ہیں ؟

جناب مغرب اور ان کے آرگنائزیشن جو چاہیں کہیں، ہمارے پاس چند ایسی نعمتیں ہیں جو ان کے پاس نہیں، ہم با ایمان ہیں، کلام اللہ موجود ہے، عبادات کے مواقع، توبہ کے دروازے، مالکِ حقیقی سے براہِ راست تعلق، قادرِ مُطلق کی پہچان، اللہ کا ہم سے کیا ہوا وعدہ، صبر و شکر کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارتیں، مغضوبین کے لیے دوزخ کی وعیدیں آخر کیا نہیں ہمارے پاس جو ایک آدھ کلو کا حقیر سا دماغ ہمیں اس ربِ ذوالجلال کی نا فرمانی پر مجبور کردے؟

خیر بندھے رہیئے، اگلی قسط میں ہم صرف زندہ رہنے کی منطقی وجوہات کا ذکر کریں گے۔

🏼 انعام الحق

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے