کسی کو کافر فاسق یا گمراہ قرار دینے کی روایت

Views

کسی کو کافر فاسق یا گمراہ قرار دینے کی روایت: ضرورت اور تقاضے!


کسی کو کافر فاسق یا گمراہ قرار دینے کی روایت کوئی نئی روایت نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسی روایتیں رہی ہیں۔ ایسے لفظوں کے مستحق فرد پر ایسے لفظ چسپاں کرنا کوئی غلط نہیں ہے۔ اس کا مقصد ہوتا ہے کہ فلاں شخص دین و شریعت کے کس پائیدان پر ہے یا اس کے احاطے سے نکل چکا ہے۔ اور ایسا کرنا ایک طرح ضروری بھی ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو صحیح غلط کی پہچان ختم ہو جائے گی۔ غلط کاروں کے حوصلے بلند ہوں گے ان کو غلط کرنے کی پوری چھوٹ مل جائے گی۔ اس لیے کسی عالم و مفتی کے صادر کردہ حکم اور فیصلے کی تحقیر کرنا، فتویٰ کو کم سمجھنا یا اس کے شرعی حکم بیان کرنے کو غلط قرار دینا، ان پر تنقید کرنا ان کی ذاتیات پر اتر آنا نہ عقلا درست ہے نہ شرعاً جائز ہے۔

غلط کاروں کو خود غور کرنا چاہیے کہ تم کو اتنی ہمت بھی ہوئی کہ غلط کرتے جا رہے ہو اور اس پر طرہ یہ کہ کوئی اس غلط کو غلط کہہ دے، تمہیں اس گناہ کا گناہ گار قرار دے دے تو اپنی غلطی پر پچھتانے کے بجائے الٹا اسی کو غلط کہنے لگ جاؤ؟ یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے؟ چوری اوپر سے سینہ زوری؟ غور کرو کہ تم کیسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہو؟ کیسی سوسائٹی کو فروغ دینا تمہارا مقصد ہے؟

یہاں دوسرا پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ ایک عالم دین اور مفتی کی سب سے پہلی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ ذاتی مفادات اور شخصی عناد و دشمنی سے بالاتر ہو کر شرعی حکم بیان کرے۔ اس کے بیان کردہ احکامات اور فتاوی سے صاف ظاہر ہو کہ اس نے شریعت کی ترجمانی اور حق بیانی کی ہے۔ اس کے کسی حکم میں کسی تملق اور چاپلوسی کی ادنی سی بو بھی محسوس نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر کبھی ایسی صورتحال پیش آ جائے کہ اس کی ذات اور شخصیت گھیرے میں آ رہی ہو اور مد مقابل شخص حق پر ہو تو شرعی تقاضا ہے کہ اپنا نقصان اٹھا لو لیکن شریعت کی پاسداری کرو!

زبیر احمد القاسمی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے