حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ ہمارے سروں کے تاج ہیں لیکن خاکم بدہن عرض ہے کہ حالیہ قضیہ میں آپ کا موقف سمجھ سے بالاتر بلکہ انتہائی مشکوک سا نظر آتا ہے، جب حضرت جی کے انحراف پر دارالعلوم کا اجتماعی موقف سامنے آیا تھا تو رجوع پر بھی اجتماعی موقف ہی سامنے آنا چاہیے تھا، حضرت مدنی مدظلہ کو چاہیے تھا کہ رجوع اور قضیہ ختم ہونے کے حوالے سے دارالعلوم کے لیٹرپیڈ پر اکابرین کے دستخطوں کے ساتھ اسی طرح واضح تحریر جاری کرواتے جس طرح انحراف کی کروائی تھی، یہ کیا بات ہے کہ وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ہماری دعوت کرتے ہیں اور ہم سے ملنے آتے ہیں اس لیے اس لیے وہ صحیح ہیں۔
اس قضیہ میں حضرت مہتمم صاحب مدظلہ اپنی جگہ برحق ہیں اور آپ کی وجہ سے ہی دارالعلوم کے اجتماعی موقف کا کچھ وقار بچا ہوا ہے ورنہ مدنی خانوادے کی متضاد صورتحال نے تو اس اجتماعی موقف کا مذاق بناکر رکھ دیا ہے۔
خیال رہے کہ جب تک دارالعلوم کی جانب سے تحریراً تبدیلی موقف کا اعلان نہیں آجاتا تب تک دارالعلوم کا موقف وہی رہے گا جو تحریراً منظر عام پر آچکا ہے اور اُس اجتماعی موقف کے برخلاف کسی بڑے سے بڑے حضرت، استاذ یا رکن شوری کی کوئی بھی رائے اس کی ذاتی رائے ہوگی جو اجتماعیت کے مقابلے میں شاذ ہونے کی وجہ سے قابل رد ہوگی۔
ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
0 تبصرے