خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں
مدعی نبوت اسود عنسی کے فتنے کا مقابلہ
جب یہ تشویش ناک خبریں مدینہ میں پہنچیں تو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم غزوہ موتہ کا انتقام لینے اور شمالی جانب سے حملوں کا سد باب کرنے
کے لیے رومیوں پر چڑھائی کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور حضرت اسامہؓ کے لشکر
کو تیاری کا حکم دے چکے تھے مگر جب یہ خبریں ملیں تو اب آپ کے سامنے دو ہی راستے
تھے، ایک یہ کہ آپ اس لشکر کو بغاوت کے فروکرنے کے لیے یمن بھیج دیں تاکہ مسلمان
وہاں دوبارہ قابض ہو سکیں یا پروگرام کے مطابق اسے رومی سرحد ہی کی جانب روانہ کر
دیں اور اسود عنسی کا مقابلہ کرنے کے لیے فی الحال انہی مسلمانوں سے کام لیں جو یمن
میں موجود تھے۔ اگر وہ اس پر غالب آ گئے تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہو سکتی
ورنہ جب حضرت اسامہ کا لشکر رومیوں پر فتح یاب ہو کر آئے گا تو اسود اور دیگر باغیوں
کے مقابلے اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے روانہ کر دیا جائے گا۔
بہت ہی احتیاط سے معاملے پر غور کرنے کے بعد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری تجویز پر عمل کرنا مناسب سمجھا اور وبربن یمنس کو یمن
کے مسلمان سرداروں کے نام یہ پیغام دے کر بھیجا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو اسلام پر
قائم رکھنے کی پوری جدوجہد کریں۔ اسود سے جنگ جاری رکھیں اور ہر ممکن طریقے سے اس
کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کریں۔ آپ نے یمن کے متعلق فی الحال یہی کارروائی
کرنی مناسب سمجھی اور پوری قوت سے لشکر اسامہ کی تنظیم میں مصروف ہو گئے۔
ابھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر روانہ بھی نہ ہوا
تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور لشکر رک گیا۔ دریں اثناء
اسود عنسی اپنی سلطنت مضبوط کرنے کی تدابیر میں مصروف رہا اس نے تمام علاقوں میں
اپنے عامل مقرر کیے اور جا بجا فوجیں متعین کیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی اس نے
زبردست قوت حاصل کر لی اور عدن تک کا سارا ساحل اور صفاء سے طائف تک کی تمام وادیاں
اور پہاڑ اس کے زیر نگیں آ گئے۔
اسود عنسی کے عہدیدار
قیس عبدیغوث کو اسود عنسی نے اپنا سپہ سالار بنایا اور
دو ایرانیوں: فیروز اور داؤدیہ کو اپنا وزیر مقرر کیا۔ اس نے شہر بن بازان کی بیوہ
آزاد سے شادی بھی کر لی جو فیروز کی چچیری بہن تھی۔ اس طرح عرب اور عجم دونوں اس
کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ جب اس نے اپنی یہ شان و شوکت دیکھی تو خیال کر لیا کہ
روئے زمین کا مالک وہی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم سے سرتابی کر سکے۔
اسود عنسی کے خلاف بغاوت
لیکن وہی عوامل جو اس کی فتح مندی کا موجب ہوئے تھے،
بالآخر اس کے زوال کا باعث بنے۔ انہی قیس، فیروز اور داؤدیہ سے جنہیں اس نے اعلیٰ
عہدوں پر متمکن کیا تھا اسے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اور موخر الذکر شخصوں اور یمن میں
مقیم ایرانیوں کے متعلق تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ حیلوں، سازشوں اور مکر و فریب سے
اس کی سلطنت کا تختہ الٹنے کی فکر میں ہیں۔
اسود کی ایرانی بیوی کو بھی اسود کی زبانی ان لوگوں کی
مخالفت کا حال معلوم ہو گیا۔ اس کی رگوں میں بھی ایرانی خون دوڑ رہا تھا اور وہ دل
میں اس کاہن کے خلاف نفرت و حقات کے جذبات پنہاں کیے ہوئے تھی۔ جس نے اس کے پیارے
خاوند کو اس سے جدا کر دیا تھا۔ پھر بھی اس نے نسوانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر
نفرت و حقارت کو اس سے چھپائے رکھا، اور طرز سلوک سے اس پر ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ
وہ اس کی نہایت وفادار بیوی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسود اپنی بیوی کی طرف سے بالکل
مطمئن رہا اور اس کے دل میں یہ شائبہ تک نہ گزرا کہ وہ کبھی اسے دغا دے سکتی ہے۔ لیکن
وہ اپنے دونوں وزیروں اور قائد لشکر سے مطمئن نہ تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ
اپنے طرز عمل سے اس وفاداری کا ثبوت بہم نہیں پہنچا رہے جو غلام اپنے آقا اور ولی
نعمت سے کیا کرتے ہیں۔ قیس کی طرف سے وہ خصوصاً فکر مند تھا۔ کیونکہ سارا لشکر اس
کے ماتحت تھا اور وہ لشکر کی مدد سے اس کے خلاف جو چاہتا کر سکتا تھا۔ کیونکہ سارا
لشکر اس کے ماتحت تھا اور وہ لشکر کی مدد سے اس کے خلاف جو چاہتا کر سکتا تھا۔
چنانچہ اس نے قیس کو بلایا اور کہا میرے فرشتے نے مجھ پر یہ وحی نازل کی ہے کہ:
" اگرچہ
تو نے قیس کی ہر طرح عزت افزائی کی لیکن جب اس نے ہر طرح عمل دخل کر لیا اور وہی
عزت جو تجھے حاصل تھی، اسے بھی حاصل ہو گئی تو اب وہ میرے دشمنوں سے ساز باز کر
رہا ہے اور تجھ سے غداری کر کے تیرا ملک چھیننے کے درپے ہے۔"
قیس نے جواب دیا
آپ کا خیال درست نہیں۔ میرے دل میں آ پ کی قدر و منزلت
بدستور ہے اور میں آپ کے خلاف بغاوت کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔
اسود نے گہری اور غائر نظر سے قیس کا جائزہ لیا اور بولا:
کیا تو فرشتے کو جھٹلاتا ہے ؟ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔
فرشتے نے ضرور سچ کہا ہے۔ البتہ مجھے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ تو اپنی پچھلی کارروائیوں
پر نادم ہے اور جو مخفی ارادے تو نے میرے متعلق کر رکھے تھے۔ ان سے توبہ کر۔
0 تبصرے