چند لمحے فرشتوں كے سایے میں
عبدالملك رسول پوری
ماہ مبارك كے كچھ روزے اہل وعیال اور اعضاےاسرہ كے مابین ركھنے كی خواہش ہوئی تودہلی كی پیشہ ورانہ مصروفیات سے رخصت لے قبل سحر رسول پور آپہنچے۔ نصف یوم تو عالم خواب اور باقی نصف نماز وروزے كے ساتھ اعزاو اقرباسے ملنے ملانے میں گذر گیا۔ شام ہوئی تو مسجد كے معتكفین اور بھائی بھتیجوں كے ساتھ افطار ہوا۔ معا بعد عزیزم مدثر سلمہ نے اطلاع دی كہ آج محمد ی جامع مسجد میں قرآن پاك كی تكمیل ہے چلیے وہیں تراویح پڑھی جائیں. كاموں سے فارغ شخص كو كیا چاہئے، یكہ نكالا اور گھوڑےمحمدی كی سمت دوڑا دیے، مختصر سے قافلے میں بھانجے مولانا محمد طارق انور بھتیجے حافظ محمد یحی سلمہ اور ہم دوبھائی شامل تھے۔ دوران سفر دھمولہ شریف كے نہایت محنتی شخص مولانا ڈاكٹر محمد انیس قاسمی موضوع گفتگو رہے۔ ان كی خوبیوں خامیوں كا ذكر خیر ہوتا رہا اور ہم لوگ ہنستے مسكراتے اپنا یكہ دوڑاتے رہے،جوں جوں ان كے مزاج ،محنت، خدمت خلق اور دور خوش آیند میں ان كی كامیابی وكامرانی كا ذكر طول پكڑرہا تھا ہمارا راستہ مختصر ہوتا چلاجارہا تھا ، مسافت بھی كوئی طویل نہیں تھی بسی یہی سات آٹھ كلو میٹر كی دوری كہ سفر شروع ہوتے ہی ختم ہوگیا اور ہم قصبہ محمدی كی تاریخی جامع مسجد پہنچ گئے۔ جس طرح یہ قصبہ شاہ جہانی دور كا اہم قصبہ ہے، جہاں عہد مغلیہ كی آخری كڑی احمداللہ مدراسی كی شش ماہی حكومت قائم ہوئی اور بردران وطن كی غداری كی وجہ سے جلد ہی ختم ہوگئی ، اسی طرح یہ جامع مسجد بھی كافی قدیم ہے، اس مسجد كی تمدنی تاریخ یعنی عمارت كی ساخت اور سازوسامان كے بارے میں تو زیادہ معلوم نہیں البتہ تہذیبی تاریخ میں یہ سمجھیں كہ كافی اہمیت كی حامل یہ ایك خوبصورت مسجد ہے،قصبے كے علاوہ قرب وجوار كے گاؤوں كے كافی لوگ اس مسجد میں جمعہ اور تراویح كی نمازوں كے لیے آتے ہیں۔ جمعہ كی نماز میں دسیوں ہزار افراد بیك وقت مجموعی طورپر نماز اداكرتے ہیں ۔ اس اجتماعیت كی وجہ سے بازار كی مسلم دوكانیں بند ہوجاتی ہیں اور رواداری میں ساتھ ہی غیر مسلم بردران وطن بھی اپنی دوكانیں بند كردیتے تھے،اب قصبے میں كئی جگہ جمعہ قایم ہوجانے كی وجہ سے وہ غلغلہ نہیں رہا لیكن اب بھی نماز سے فارغ ہوكرمسجد سے نكلتے وقت بہت دور تك اور دیرتك سفید پوش نمازیوں كا تسلسل قائم رہتا ہے۔ظہر سے جمعہ میں نماز كی اس تبدیلی كی علمت اور مقصد یہی غلغلہ تھا جس سے سماج میں ایك مثبت اثر پیدا ہوتا ہے،اجتماعت اور یك جہتی نظر آتی ہے اور دبدبہ قائم ہوتا ہے؛لیكن جس طرح نماز میں صفوں كا ٹہڑا پن سماجی اختلافات كا ضامن ہوتا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی بستیوں میں جمعہ كا قیام اور قصبوں میں تعدد جمعہ سماجی ہیبت اور دبدبے كو ختم كردیتا ہے جو سماجی پسماندگی كے لیے راہیں ہموار كرنے میں نہایت منفی كردار ادا كرتا ہے۔ سماجی حیثیت اور عوامی مرجعیت كے لحاظ سے یہ مسجد وہی ہے جسے عربی میں المسجد الجامع كہاجاتا ہے اور جہاں سے جامع دمشق اور جامع ازہر وغیرہ نكل كر حیز وجود میں آتی ہیں۔ بس اسلامی ممالك كی ان مساجد میں علمی حلقے كل بھی لگتے تھے اور آج بھی اور انھیں علمی حلقوں كی وجہ سے جامع دمشق اور جامع ازہر كی حیثیت مسلم ہوتی چلی گئی اور انھیں علمی حلقوں كے نہ ہونے كی وجہ سے چھوٹے قصبے كی یہ بڑی مسجد اپنی حثیت كھوتی چلی گئی۔ كیا اچھا ہوتا ہے كہ مسجد كے پاس ہی قائم مشہورادارہ محمودیہ اس مسجد میں ضم ہوجاتا یا یہ مسجد ادارہ كا حصہ ہوجاتی ہے اور تعلیمی درسگاہوں كے لیے اس مسجد كے برآمدے استعمال كیے جانے لگتے اس سے نہ صرف مسجد كی رونق دوبالا ہوجاتی بلكہ ادارہ محمودیہ كی تعمیری ضرورتیں بھی پوری ہوجاتیں۔
جامع مسجد میں قرآن پاك قصبے كے مشہور نظامی خانوداے كے ایك ہونہار فردسنارہے ہیں ۔یہ صدیقی خانوادہ ہریانہ كے مشہور علمی قصبے رہتك سے ہجرت كر كے لكھنؤ كے راستے محمدی پہونچا تھا ،نسبی شرافت علمی لیاقت اور طبی مہارت كی وجہ سے نوابان اودھ نے كافی ساری جاگیریں عطا كی ہوئی تھیں ؛دنیوی مال ومتاع تو زوال پذیرہی ہوتا ہے مرور ایام كے ساتھ جس طرح نوابوں كی نوابی زبوں حالی كا شكار ہوگئی اس خانوادے كی جاگیریں بھی نہ جانے كہاں گم ہوگئیں؛ البتہ خانوادے كا روحانی سرمایہ بحمد اللہ آج بھی محفوظ ہے اور خاندانی وجاہت وشرافت ،صدیقی تواضع وانكساری، ضیافت ومہماں نوازی آج بھی قائم ودائم ہے۔ قصبے میں انھیں رفیع العماد اور طویل النجاد كی حیثیت كل بھی حاصل تھی اور آج بھی حاصل ہے ، جس اجنبی مسافر كا كوئی میزبان نہیں ہوتا اس اجنبی كو اس گھر كا ہر فرد اپنا مہمان بنانے میں اپنی سعادت محسوس كرتا ہے۔
ارشد میاں بھی اسی خانوادے كے ایك فرد ہیں ، ماشاء اللہ اچھی یاد داشت والے عمدہ حافظ ہیں، آواز بھی پركشش پائی ہےگرچہ نہ تو وہ پان كھانے كا شغل ركھتے ہیں اور نہ ہی پلاؤ اور بریانی یعنی چاولوں سے پرہیز كرتے ہیں پھر بھی آواز میں جادو ہے كہ دل كھینچے ہی چلے جاتے ہیں۔ كہاجاتا ہے كہ اچھے قاری بنارسی پان كا شوق ركھتے ہیں اور چاولوں سے گریز كرتے ہیں كہ كہیں ان كی آواز متاثر نہ ہوجائے ؛ لیكن یہاں یہ مقولہ حقیقت سے دور بس ایك ہیولی ہی محسوس ہوتا ہے ۔ہاں اگر ان كی والدہ خفیہ طور سے كوئی خمیرہ یا معجون كھلاتی ہوں تو وہ اندر كی بات ہوگی جس سے ہم باہر والے كیوں كرباخبر ہوسكیں.
اچھے استاذ اپنے شاگر د كی نہ صرف یادداشت اور حفظ آیات پر توجہ دیتے ہیں بلكہ لحن اور لہجہ كے ساتھ الفاظ كے صوتی نبرات یعنی زیر وبم اور یعلمون تعلمون اور غفاراومدرارا كی موسیقی پر بھی كافی توجہ مركوز كرتے ہیں ؛ كیوں كہ قرآنی تلاوت كی خاصیت یہ ہے كہ وہ لوگوں كےقلوب كو مسخر كرلیتی ہے اور وہ قاری كی آواز كی طرف كھنچتے چلتے ہیں ۔ اسی لیے جس طرح الصلوۃ تنہا عن الفحشاء كی بنیاد پر نمازوں كی عنداللہ مقبولیت جانچنے كا طریقہ یہ ہے كہ نمازی كو گناہوں سے اجتناب كی توفیق مل رہی ہے یا نہیں ،بالكل اسی طرح الا بذكر اللہ تطمئن القلوب كی بنیاد پر قاری كی تلاوت اور اپنی قلبی پاكیزگی جانچنے كا ایك طریقہ یہ بھی ہے كہ سامع كے قلب پر سكون واطمینان كی كیفیت طاری ہورہی یا نہیں ، اگر طاری ہورہی ہے تو سمجھو كہ قاری كا معیار بلند ہے اور ابھی آپ كے قلب پر بھی طبع علی قلوبہم والی مہر نہیں لگی ہے اور اثر پذیری كی صلاحیتیں ابھی موجود ہیں، ارشد میاں كی تلاوت میں یہ صفت بدرجہ اتم پائی جارہی تھی۔
حافظ ارشد سلمہ ہمہ طو ر ایك اچھے حافظ ہیں لیكن بے چارے وہ بھی معاشرے میں رائج ایك غلط روش كے شكار ہیں جس میں اگر كہا جائے تو ان كا كم ان كے سرپرستوں كا قصور زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ یہ كہ علمی خانوادوں میں تعلیم كا نہج كچھ اس طرح ہے كہ بچوں كو پہلے حافظ بنایا جاتا ہے پھر عالمیت كے لیے آئندہ تعلیمی سلسلہ شروع كیا جاتا ہے ۔ جو عالم بن گئے ان كو عالم صاحب كی سند مل جاتی ہے اور گھر اور بیرونی سماج میں ان كی حیثیت ایك پڑھے لكھے انسان كی حیثیت سے مسلم ہوجاتی ہے التبہ جو كسی ہونی یا انہونی كی وجہ سے عالم نہیں بن سكےیا پورے نہیں صرف ادھورے بن پائے تو وہ اندور ن خانہ اور بیرونی معاشرے میں اتنے فرو تر سمجھے جاتے ہیں كہ ان كی حافظ ہونے كی لیاقت بھی انھیں خواندہ نہیں تسلیم كرواپاتی ہے۔ یہ ایك غلط روش ہے، شرعی لحاظ سے تو نہ پورا عالم بننا فرض ہے اور نہ ہی محض حافظ رہ جانے میں كوئی قباحت۔ عالم تو دینی ضرورتوں كی تكمیل كے لیے بناجاتا ہے البتہ حافظ تو قرآنی لحافظون كی وجہ سے بنا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن پاك كی حفاظت كی ذمہ داری اپنے سراوڑھی ہوئی ہے جس كا نظام انھوں نے یہ بنادیا ہے كہ قرآن كو اپنے خاص بندوں كے سینوں میں محفوظ كردیا ہے اب قرآنی آیات كو كوئی لاكھ غلط طبع كرے بالآخر وہ پكڑا جائے گا ا ور محرف قرآن كی شناخت لحظوں اور ثانیوں میں كر لی جائے گی۔ جس میں یہ حفاظ كرام بنیادی كردار ادا كرتے ہیں اور كرتے رہیں گے جس كی وجہ سے یہ خدائی خدمت گار انتہائی سے زیادہ قدر ومنزلت كے مستحق ٹھہرتے ہیں پر معاشرہ ان كو ان كا یہ حق نہ دے كر اپنے كو عنداللہ محرومین كی فہرست میں شماركرانا چاہتا ہے۔
خیر بات یہ تھی كہ اہمیت اكمال كو نہیں امتیاز كو حاصل ہوتی ہے،اباگر كوئی كسی وجہ سے عالم بن كر اپنی شخصیت كو مكمل نہ كرسكا تو اس كا مطلب یہ بھی نہیں ہے كہ قاری بناكر اس كی شخصیت كو مسلم نہ كروایا جائے۔ معاشرے میں قاریوں كا اپنا وجود ہوتا ہے اور دینی لحاظ سے بھی ان كی اپنی اہمیت ہوتی ہے اس لیے حفاظ كرام كو ایك دو سال كا وقت مزید صرف كر كے اپنے اندر تجوید وقرأت والی امتیازی خوبیاں پیدا كرلینا چاہئیں تاكہ معاشرے میں ان كو بھی عظمت كی نگاہ سے دیكھا جانے لگے اور ان كے اندر بھی خود اعتمادی كی كیفیت پیدا ہو اور جلا پاتی رہے۔
مختصر سفر كی طویل روئداد كا ایك حصہ یہ بھی ہے كہ تكمیل قرآن كے بعد اسی خانوادے كے سر پرست حضرت الاستاذ مولانا اسلام الحق اسجدصاحب كا بیان بھی ہوا۔ حضر ت كے تعارف میں بس اتنا كافی ہے كہ جس طرح حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم كونبوت سے پہلے مكہ مكرمہ كی عام زندگی میں الصادق الامین كا نوبل پرائز ملا ہوا تھا بس سمجھیے كہ اسی نبوی طرز حیات كی وجہ سے حضرت الاستاذ كو بھی پورے قصبے میں مسلم اور غیر مسلم بردران وطن كے مابین الصادق الامین كا امتیازی لقب حاصل ہے۔ استاذ محترم نے وقت كے لحاظ سے قدرے طویل پر نہایت پر مغز تقریر كی جس میں انھوں نے فرمایا كہ قرآن پاك عربی زبان میں نازل ہوا ہے تو اسے عربی زبان ہی میں پڑھا جانا چاہئے ۔یعنی جو حلاوت عربی زبان كا خاصہ ہے وہ قاری كی تلاوت میں نظر آنی چاہئے، عموما بہت سے نمازی اولاقرآن پاك كو اردو زبان میں سننا چاہتے ہیں ثانیا غیر محبوب سرعت اور تیزی میں سننا چاہتے ہیں ، ان بے چاروں كو پتہ ہی نہیں ہے كہ اصل وقت تلاوت میں نہیں ركوع و سجود میں لگتا ہے اور كنٹرول سے باہر تیزی اكسیڈینٹ كی ضامن ہوتی ہے۔ قرآن پاك كو عربی زبان میں پڑھنے كوایك واقعہ سے اچھی طرح سمجھا جاسكتا ہے كہ ایك مرتبہ حضرت مولانا عمیدالزماں رحمۃ اللہ علیہ ایك یونیورسٹی میں عربی كے ایك پروفیسرصاحب سے ملاقات كے لیے تشریف لے گئے ،پروفیسر صاحب نےعربی دانی كی وجہ سے عربی زبان میں گفتگو كرنا شروع كردیا ۔ مولانا عمیدالزماں صاحب مرحوم نے كچھ دیر تك تو تحمل كیا اور جب نہ ہوسكا تو كہا كہ حضرت آپ اردو ہی میں گفتگو كریں تو زیادہ بہتر ہوگا مجھے خدشہ ہے كہ كہیں آپ كے یہ اردو لہجے میں عربی بولنے كی وجہ سے میرا اپنا لہجہ نہ متاثر ہوجائے۔ تو بس یہ سمجھو كہ جب ایك انسان اس لہجے كو محض دوچار منٹ كے لیے برداشت نہ كرسكا تو باری تعالی اپنے كلام كو كسی دوسرے لہجے میں سننے كا كیسے تحمل كرپائیں گے۔سچ پوچھو تو غضب ہوجائےگا۔
جامع مسجد كی تراویح ،تقریر اور دعا سے فراغت پاكر ہم لوگوں كا چہار نفری قافلہ اسی خانوادہ كے عظیم فرد مولانا ضیاء الحق اخلد صاحب كے دولت كدے پر حاضر ہوا۔جہاں وہ میزبانی كے فرایض انجام دینے كے لیے پہلے سے تشریف لے جاچكے تھے ۔ دسترخوان كیا تھا بس من وسلوی كا نزول ہورہا تھا۔ اس كا وصف ہم كیا بیان كریں خود ہی وہاں ایك بار جا كر دیكھیں ۔ بس ہم احمد ارشد اور احسن یعنی امی كے میزبان بچوں سے یہ كہنا چاہیں گے كہ آپ لوگوں نے خربوزے بہت سلیقے سے كاٹے ہوئے تھے۔ پستہ بادام اور كاجو كی تو اتنی ضرورت نہ تھی البتہ آیس كریم كے ساتھ جلیبی كے جو جلوے تھے وہ كم ہی نظر آتے ہیں۔ جن كے یہاں چھوٹی بہنیں نہیں ہوتی ہیں ان كے یہاں بچے بھی كچن كے كاموں میں امی كا ہاتھ بٹاتے ہیں اور ہم نے بھی اپنی والدہ كے ساتھ بہت بار آٹا بھی چھانا ہے اور چولھے بھی جلائے ہیں تو آپ لوگ بھی برامت منایا كرو.
اللہ رب العزت سے دعا ہے كہ خانوادہ اور اہل خانوادہ كو یوں ہی اپنے فضل وكرم سے نوازتا رہے۔
عبدالملك رسول پوری
Malikqasmi@gmail.com
0 تبصرے