اردو شروحات کا استہزا

Views

اردو شروحات کا استہزا 


از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری 
29 رجب 1446ھ 30 جنوری 2025ء 


    مذہبی رنگ کے منکرات اپنی اصل میں معروف ومستحسن ہوتے ہیں، افراط وتفریط، تجاوزات اور غلو ان کے حسین چہرے پر مکروہ غازہ تھوپ دیتے ہیں، نا اہل ہاتھ پھولوں کی شادابی کو مسخ کر دیتے ہیں، ناقص باغبان چمن کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے؛ مگر کوئی نہیں کہتا کہ چمن بندی قبیح عمل ہے، یا باغبانی قابل مذمت ہے، پانی کہاں مر رہا ہے؛ اس کی نشاندہی کی جاتی ہے، فساد کی وجہ طے کی جاتی ہے اور عملِ جراحی کو حدود کا پابند رکھا جاتا ہے، جس طرح ایک شاندار عمل کو اپنی بے راہ روی سے خراب کرنے والا طبقہ مجرم ہے، اسی طرح تنقید کے نام پر لمٹ کراس کرنے والا جدت پسند آزاد گروہ بھی دانستہ یا غیر دانستہ آلۂ کار ہے۔
اگر دقیق بحثوں کو اردو زبان میں حل کرنا، دشوار فہمی کے ذوق کو متاثر کرتا ہے تو اصل کربلا ہماری درسگاہ ہیں، جن کی تدریسی زبان اردو ہے، یہ قابل تسلیم نہیں کہ اردو زبان میں پڑھنا ذوق کے لیے سم قاتل ہے اور اردو میں سننا مژدۂ جاں فزا، اردو کی قلمی تشریح گلشن کے لیے پیغام موت ٹھہرے اور اردو ہی کی لسانی تشریح بہار نو کہلائے، اگر اردو تفہیم دقتِ فہم، باریک ادراک اور مشکل یافت کی افتاد کو نقصان پہنچاتی ہے تو اس میں قلم اور زبان دونوں ہم صفحہ ہیں، ایک پر فرد جرم عائد کرنا جانب داری ہے، یکساں طور پر قد غن لگاؤ، درس گاہوں کی زبان کو عربی کا پابند بناؤ؛ مگر یہ زاویہ ہی بے بنیاد ہے، جب آپ مشکل مقام کو سمجھ گئے تو آپ کی عسیر الفہمی نشوونما پا گئی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے سرکش گھوڑے کو قابو کیسے کیا، اتنا کافی ہے کہ آپ دشوار گزار وادی سے سرخ رو نکلے۔
شرح کی قیمت زبان سے طے کرنا وہی دھوکہ ہے جو کوتاہ بینوں کو امتحان کے پرچے میں ہوتا ہے، بعض وارفتہ سر یہ سوچتے ہیں کہ جواب میں عربی کفایت کرے گی، مشمولات کی اہمیت نہیں، ایسے عربی پرچوں کو ردی کے ٹوکرے میں جگہ ملتی ہے؛ جب کہ اردو میں حل کیا ہوا عمدہ پرچہ تحسین بٹورتا ہے، علم میزان ہے، نہ کہ زبان، مثال کے طور پر بخاری کی ایک عربی شرح التوشیح ہے، جسے علامہ سیوطی نے رقم فرمایا اور ایک اردو شرح انوار الباری ہے، جسے میرے ہم وطن بزرگ عالم دین مولانا احمد رضا بجنوری نے مرتب کیا، دونوں کا موازنہ کر لیں، عربی شرح علم سے خالی ہے؛ جب کہ انوار الباری کی سطر سطر علم ہے، میں نے یہ جاننے کے لیے مایوسانہ سعی کی کہ علامہ سیوطی نے یہ شرح کیوں لکھی؛ مگر میں بدستور خالی ہاتھ رہا۔
ہماری نصابی کتابیں دشوار ہیں، پھر ان میں بعض مقامات دقیق ہیں، دیانت دار مدرس ان مقامات کو اپنی ذہانت، متعلقہ مراجع، فنی مصادر اور ممکنہ مواقع کی مراجعت سے حل کرتا ہے اور طلبہ کی علمی آسودگی کو یقینی بناتا ہے؛ لیکن سال بھر کا طویل دورانیہ اس دریافت کو متاثر کر دیتا ہے، یوں وقت آنے پر نئی جان کاہی لگتی ہے، اس کا حل یہ ہے کہ اساتذہ اشاریے تیار کر لیتے ہیں؛ تا کہ سالانہ مشقت موقوف ہو جائے، اس میں ایڈوانس خیال یہ ہے کہ مکمل شرح مرتب کر لی جائے اور ایک بار کی ریاضت ہمیشہ کے لیے محفوظ اور زندہ وجاوید ہو جائے، اگر کسی مدرس کو یہ تحریک شارح بناتی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ یہ تو خالص علمی تناظر ہے، زبانی افادہ محدود تھا، قلمی صورت میں فیض عام وتام ہو گیا۔
ناچیز کو درس متنبی تفویض ہوا تو کئی باتیں سامنے آئیں، عربی زبان میں متنبی کی دس سے زائد شروحات ہیں، خود متنبی کا معاصر اور ستونِ عربیت ابن جنی بھی شارحین کی صف میں ہے؛ لیکن ہمارے درسی آہنگ میں وہ سب مل کر بھی کافی نہیں، لغات میں ان کا نقص فطری ہے، ایک تو اس لیے کہ عرب شارحین کو نیا لفظ بعد از جستجو بہ مشکل میسر آتا ہے؛ جب کہ ہمارے لیے تقریبا ہر لفظ نیا ہے، دوسرے ان کا بیانِ لغت جداگانہ ہے، ہم اس کے عادی نہیں، اس کے بعد نحوی ترکیب پر آجائیں، اولا تو زنجیری اور عائلی ترکیب ان کے یہاں متعارف ہی نہیں، وہ انتخابی ترکیب کے عادی ہیں اور اس میں بھی استیعاب اور احاطہ ہر گز نہیں، اس طرح ترکیب کے باب میں ابن جنی سے لے کر عکبری تک سب از کار رفتہ ہیں۔
متنبی کی ترکیبی وادی کو دست یاب اردو شروحات کی جاہلانہ ترکیبوں نے مزید خاردار کیا، اردو شارحین نے ترکیبوں میں دونوں انواع کی غلطیاں کی ہیں: مفہوم اور معنی سے مزاحم ترکیبیں بھی درج ہیں اور فنی اصولوں سے متصادم بھی، ناچیز سے متنبی پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ غلط ترکیبوں کی نشاندہی بھی درسی تفریح کا ایک عنوان تھا، مستزاد یہ کہ مجھے بعض اشعار کی روایتی تشریح بے محل معلوم ہوئی اور میں نے ان کو درست معانی دیے، وہاں مجھے عرب اکابر شارحین کی رائے بھی نارسا محسوس ہوئی، یہ بات درس گاہ میں برملا کہی بھی، دونوں معانی سامنے رکھ کر میں نے طلبہ سے پوچھا کہ کون سا معنی مربوط اور معقول ہے؟ سب نے میرے خیال کی تائید کی، یہ ایسا تناظر ہے جس میں ذہین، ماہر، محنتی، با ذوق اور ذی علم مدرس اردو شرح کی طرف جاتا ہے، بار بار کی محنت کا خون بہا ایک بار کی قلمی یاد داشت سے ادا کرنا چاہتا ہے۔
تخلیقی افتاد جب شرح کا محاذ کھولتی ہے تو علم وفن کا گنج گراں مایہ نمودار ہوتا ہے، تخلیق کار حل کتاب تک محدود نہیں رہے سکتا، آپ نے نہیں دیکھا تفتازانی فن کاری جب جوش مارتی ہے تو علوم عربیت کہاں تک لہراتے ہیں اور تلخیص کی شرح ایک گوشے میں سکڑ جاتی ہے! قرآن کا فنی شارح محی الدین درویش ایک لفظ کے تعاقب میں دشت گزار آتا ہے! مدرس کے سینے میں ابلنے والے نکات آخر پیرہن کیا اختیار کریں؟ یادداشت کافی نہیں اور وقیع بھی نہیں ہوتی، بالآخر وہ شرح کا سہارا لیتا ہے اور حل کتاب کے جلو میں موتی لٹاتا ہے اور "کم ترک الأولون للآخرین" کو مجسم کرتا ہے، چھوٹا منہ بڑی بات، بخاری کی شرح میں بھی نئے جواہر ٹکرائے؛ مگر حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کو نسبت اور ادعا نا گوار تھا؛ اس لیے انتساب حذف کرتے گئے، واقعی حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری علیہ الرحمہ دارالعلوم کی شخصیات کے مابین کسر نفسی بل کہ بے نفسی کے باب میں عدیم المثال تھے، وہ قلندرانہ شان رکھتے تھے کہ مشکات کے درس میں فرما گئے بہشتی زیور دیکھ کر آیا ہوں، اب بھی کسی تحقیق کو لے کر نفس شوخی کرتا ہے تو حضرت کا چہرہ برہانِ رب بن کر سامنے آجاتا ہے۔
حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے حدیث اور فن حدیث پر شاہ کار تیار کیے؛ مگر وہ اپنی بعض تصانیف کا استخفاف کرتے تھے، ان میں نخبۃ الفکر بھی شامل ہے، وہ ان کتابوں کو ابتدائی دریافت مانتے تھے؛ جب کہ یہ سب تحقیق کا نمونہ ہیں، فتح الباری پر وہ ناز کرتے تھے، اسے وہ متاع حیات اور مایۂ دو جہاں قرار دیتے تھے؛ کیوں کہ وہ مجرد شرح نہیں ہے، وہ دیوانِ سنت اور دفتر دین ہونے کے علاوہ ان کے فن پاروں کی امین ہے، اس چمن میں وہ بوٹے سجائے گئے ہیں جن میں خونِ جگر لگا ہے، عظیم شخص شرح نہیں لکھتا چشمۂ ابد پیدا کرتا ہے، فتح الباری علوم وفنون کی فتح ہے۔
آپ کس مالیات کی بات کر رہے ہیں؟ میں ایسے شارح مدرس کو جانتا ہوں جس کی تنخواہ پورے مہینے کی دو روٹی کے مطالبات سے ہار جاتی ہے، تصنیف کے منافع دو دو چار چار کتابوں کی شکل میں آکر کب صرف ہو جاتے ہیں خبر نہیں ہوتی، ایڈیشن ختم ہونے پر بخار عود کرتا ہے کہ نیا ایڈیشن کیسے شائع کریں، اگر اہل علم کو مخلص خدام دین کی مدد حاصل نہ ہو تو قیمتی کتابوں کی نئی اشاعت بھی ممکن نہیں، خلاصۃ التفاسیر پر کام کیے ہوے سالوں گذر گئے، اس کے تعارف پر ناچیز کا ارقام کردہ پچیس صفحاتی مقدمہ پرانا ہو گیا؛ مگر کتاب کی اشاعت کا خواب ہنوز سرمایے کی راہ دیکھ رہا ہے۔
 چھوٹوں کا ذکر کیا بڑوں کی تصانیف بھی اہل خیر پر منحصر رہیں، ہم دور بیٹھے آمدنی کے قیاس وضع کرتے کرتے مرے جا رہے ہیں! اور کون سی دولت ہے علماء کے پاس؟ آخری حوالہ ذاتی گھر ہے، ارے ظالمو! ذاتی مکان بالکل بنیادی درجے کی ضرورت اصلیہ ہے، بعض منتظم مزاج، کفایت شعار، متحرک وفکر مند اساتذہ گھر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں! اور کیا آسائشیں ہیں؟ وہ بھی بتدریج، سستے وقت میں دور دراز جگہ خرید لی، اس میں بھی قرض ہوا، پھر پیٹ کاٹ کر گھر بنا لیا، باقی زندگی اس کا قرضہ اتار رہے ہیں، یہ حاصل ہے اساتذہ اور شارحین کی مالیات کا۔
اردو زبان، اسلام اور علوم اسلام کی دوسری مادری زبان ہے، یہ درجہ اصل مصادر کے لحاظ سے ہے، قارئین کے اعداد وشمار کو سامنے رکھیں تو درجہ بندی پر نظر ثانی بھی ممکن ہے، پھر ہمارا حلقہ اردو داں ہے؛ اس لیے اردو شرح فطری ترجیح ہے، مصنف خالص علم کا انتخاب کرے گا تو عربی قلم کی طرف جائے گا اور اگر تفہیم کو چنے گا تو اردو قالب کی طرف جائے گا، پھر متعلقہ حلقہ، ضرورتِ مخاطب اور دائرۂ عمل کے محرکات بھی اہم ہیں اور وہ سب اردو کے حق میں جاتے ہیں، اس سیاق میں اردو شرح نے ایک بابِ علم متعارف کرایا، پھر بعض اہل علم کا عربی قلم سیال نہیں ہوتا اور پر تکلف اظہار علم وفن کی شادابی، رعنائی اور نمود کے منافی ہے، تو وہ اپنا علمی سوختہ اردو شرح میں ودیعت کر دیتے ہیں، مرور زمانہ کے ساتھ ان جواہر کے قدردان جنس کی تبدیلی بھی کر لیتے ہیں، اگر اکابر نے اردو کو عار سمجھ کر وہ موتی نہ بکھیرے ہوتے تو دنیا ایک علم سے محروم ہوتی۔
اردو شرح کے استہزا کا محرک جدت پسندی ہے، یہ مغالطہ ہے کہ وہ عربی شروحات کے معتقد ہیں، ان کی نظر میں علم کی خدمت حقیر ہے، اردو شرح کو آسان ہدف کے طور پر نمایاں کیا گیا ہے، وہ علم کی جملہ سرگرمیوں کو عبث مانتے ہیں، ورنہ ان کی تنقید تجزیاتی بنیاد پر ہوتی، وہ معیار کی بات کرتے، ان کے تیر غیر معیاری نقوش تک محدود ہوتے، وہ خانہ پری رجحان پر مرکوز ہوتے اور اگر ایسا ہوتا تو لفظ اردو سے گریز ناگزیر تھا، غیر ضروری کام تو عربی زبان میں بھی خوب ہوتا ہے، نت نئی بے مقصد تصانیف کا عربی سلسلہ تو سیلاب کی صورت میں آیا ہوا ہے، پھر اردو پر اصرار نیت کو مشتبہ بناتا ہے اور فکر کی چغلی کھاتا ہے۔
کچھ پتا نہیں کیا لکھنا تھا اور کیا لکھا! اور اب اس دراز نفس گفتگو پر نظر ثانی بھی مشکل ہے، بس کچھ بھی سمجھ لو یا کچھ بھی نہ سمجھو! طبیعت ناساز ہے، شوگر ہو گئی ہے، ہموم وغموم سے نبرد آزمائی میں ہنوز مغلوب ہوں، دعا فرماتے رہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے