اروناچل پردیش میں غیر قانونی مدارس' کے الزامات پر مسلم برادری کاسخت ردعمل

Views


📢 اروناچل پردیش میں 'غیر قانونی مدارس' کے الزامات پر مسلم برادری کا سخت ردعمل

ایتانگر، 15 نومبر 2025

 

مسلم برادری کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلے کو مقامی مسلمان شہریوں سے جوڑنا سراسر غلط ہے اور اس سے سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

اروناچل پردیش میں مبینہ طور پر 'غیر قانونی مدارس' اور 'غیر قانونی مسجد کی تعمیرات' سے متعلق بڑھتے ہوئے الزامات پر ریاستی مسلم برادری نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ مسلم کمیونٹی نے ان تمام دعوؤں کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا ہے اور زور دیا ہے کہ ریاست میں تمام اسلامی ادارے قوانین کے دائرے میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔

1. مسلم برادری کا دو ٹوک مؤقف

14 نومبر کو اٹانگر کے پریس کلب میں کیپٹل جامع مسجد کے پی آر او گیاہ لیمپیہ سلطان نے صحافیوں سے بات چیت کی۔ ان کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

 الزامات کی تردید: سلطان نے واضح کیا کہ اروناچل پردیش کے مسلمان ہمیشہ سے قانون کے پابند شہری رہے ہیں اور ان کے کسی بھی ادارے یا تعمیرات پر لگائے گئے حالیہ الزامات حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔

 عبادت گاہ کو تنازع سے دور رکھنے کی اپیل: انہوں نے اپیل کی کہ مساجد صرف عبادت گاہیں ہیں اور انہیں بلاوجہ تنازع کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔

  قانونی حیثیت پر زور: مسلم برادری کا دعویٰ ہے کہ جن اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ سب قانونی دستاویزات اور ریاستی اصولوں کی مکمل پاسداری کے ساتھ قائم کیے گئے ہیں۔ ان کے خلاف "غیر قانونی مدرسوں" کی اصطلاح کا استعمال بلا ثبوت کیا جا رہا ہے۔

  تارکینِ وطن کا الگ مسئلہ: انہوں نے واضح کیا کہ غیر قانونی تارکینِ وطن (Illegal Immigrants) کا مسئلہ ایک علیحدہ معاملہ ہے، جسے جان بوجھ کر اروناچل کے برسوں سے آباد مسلم شہریوں سے جوڑنا غلط ہے۔

2. الزامات لگانے والی تنظیم کا موقف (APIYO)

مسلم برادری کے اس ردعمل سے ایک دن قبل، اروناچل پردیش انڈیجینس یوتھ آرگنائزیشن (APIYO) کے صدر تارو سونم لیاک نے پریس کانفرنس کی تھی۔

  APIYO کا مقصد: لیاک نے وضاحت کی کہ ان کی تنظیم کسی مذہب یا مذہبی ادارے کے خلاف نہیں ہے۔ ان کی مہم کا مقصد صرف غیر قانونی تارکینِ وطن اور اجازت کے بغیر کی گئی تعمیرات جیسے عوامی مسائل کو حکام کے سامنے لانا ہے۔

   غیر قانونی تعمیرات کا دعویٰ: تاہم، انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اٹانگر کیپیٹل ریجن میں کچھ مذہبی ڈھانچے غیر قانونی طور پر بنائے گئے ہیں، اور ان کی جانچ کے لیے حکام کو یادداشتیں (Memorandums) دی گئی ہیں۔



3. حکومتی سطح پر صورتحال اور تازہ ترین پیش رفت

   کوئی تصدیق نہیں: اب تک ریاستی حکام کی جانب سے کسی بھی مسجد یا مدرسے کی غیر قانونی حیثیت کی باضابطہ طور پر تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام الزامات فی الحال صرف دعوؤں کی بنیاد پر ہیں۔

  دھمکیوں کا معاملہ: APIYO کے صدر لیاک نے یہ انکشاف کیا کہ مسائل اٹھانے کے بعد انہیں دھمکی آمیز فون کالیں موصول ہوئیں، جس کی شکایت انہوں نے پولیس میں درج کرائی ہے۔ پولیس کے مطابق یہ معاملہ زیرِ تفتیش ہے۔

4. برادری کی اپیل اور نتیجہ

مسلم برادری نے زور دیا ہے کہ ریاست میں برسوں سے قائم خوشگوار ہم آہنگی کو ایسے غیر مصدقہ الزامات سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے تنظیموں اور افراد سے ذمہ داری کے ساتھ بات کرنے کی درخواست کی ہے۔

مسلم رہنماؤں نے واضح کیا ہے کہ وہ قانون، امن اور بھائی چارے کو ترجیح دیتے ہیں اور پرامن ماحول کو برقرار رکھنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ مسلم کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ غیر مصدقہ الزامات کے بجائے ہر معاملے کو شفاف طریقہ کار اور قانون کے مطابق دیکھا جائے۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے